آج ہم رو نہ پڑیں، آج بہت زرد ہے دل ۔ اردو شاعری

آج ہم رو نہ پڑیں۔۔۔ آج بہت زرد ہے دل۔۔۔
کھول دیں تنگ گریبان کا ہر ایک بٹن۔۔۔
پھینک دیں عشق کے دعوؤں کے سبھی بوجھ یہیں
اور گر جائیں کسی سایہءدیوار تلے
ایک بوسیدہ عمارت کے ستونوں کی طرح۔۔۔
خواب کب تک ہمیں کاندھے پہ اٹھا کر رکھیں
رنگ کب تک کسی چہرے کو سجا کر رکھیں
پھول کب تک سبھی کانٹوں کو چھپا کر رکھیں۔۔۔
رات کو موت کا سایہ نہیں سونے دیتا
دن دہکتے ہوئے سورج کی جلن کاٹتی ہے۔۔۔
آج اِن ادھ کھلی آنکھوں کو ذرا موند نہ لیں۔۔۔؟
جس طرح قبر میں ہر لاش تھکن کاٹتی ہے۔۔۔
چوٹ ایسی ہے کہ نوحہ بھی نہیں بن سکتی
زخم ایسا ہے کہ ہم سے نہ دکھایا جائے۔۔۔
کاش کر سکتے ہم اظہارِ اذیت لیکن
حال افسانہ نہیں ہے کہ سنایا جائے۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔؟
کیسے ہوا۔۔۔؟
آج نہ پوچھو ہم سے۔۔۔
آج سینے پہ دھری ہے کسی افسوس کی ِسل
کل کا وعدہ ہے کوئی بات کریں گے۔۔۔
مگر آج
آج ہم رو نہ پڑیں۔۔۔؟
آج بہت زرد ہے دل۔۔۔

عمران فیروز