میں نے جب مڑ کر دیکھا رستے میں
اک کتاب کھلی پڑی تھی بستے میں
تیری دید کی خاطر ہے نقصان اٹھایا
خود کو جا کر بیچ آیا ہوں سستے میں
میرا لشکر بھاگ گیا ہے رن سے اور اب
میں ہوں سپاہی تنہا رہ گیا دستے میں
آو مل کر بات کریں کچھ ماضی کی
آخری پھول بھی سوکھ گیا گلدستے میں
اس کو میرے دل کا حال معلوم نہ ہو
آنکھ سے آنسو پونچھ آیا ہوں ہنستے میں
میں نے اس کو خود میں یوں بسر کیا
موتی تھا پر خاک ہوا ہوں رستے میں
عثمان خادم کمبوہ