Bevi Ka Maot Ke Baad Inteqam

السلام علیکم میں اپنے یونیورسٹی فیلو سے محبت کرتا تھا جس کا نام فرخندہ تھا۔ میں اور فرخندہ یونیورسٹی میں ایک ہی ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹ تھی اس لیے اکثر ہی اتے جاتے ہوئے امنہ سامنا ہو جاتا اور میں قابل سٹوڈنٹ بھی تھا میرا نام یونیورسٹی کے ٹاپرز میں شامل تھا جبکہ فرخندہ قطرے اوسط درجے کی سٹوڈنٹ تھی مگر امیر گھرانے کی اکلوتی بھی تھی اس نے ایک اللہ نے مجھے اپنے شاہانہ لائف سٹائل کے بارے میں بتایا تو میں اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس کا باپ بہت بڑا بزنس مین تھا اور فخندہ اکلوتی اولاد تھی جلد ہی ہمارے درمیان دوستی کا رشتہ محبت میں بدل گیا اور ہم ایک دوسرے کے لیے اہم ہو گئے یونیورسٹی کے چار سالوں میں ہمیشہ ہمیں ساتھ دیکھا جاتا اور ہماری محبت کی داستان ساری یونیورسٹی جانتی تھی سوائے میرے گھر والوں۔ میں تو میڈل کلاس گھرانے کا لڑکا تھا جس کے کندھوں پر تین بہنوں کی شادی کے ساتھ ساتھ کئی مزید ذمہ داریوں کا بھی بھاری بوجھ تھا۔

ایسے حالات اپ نے مجھے گھر میں اپنی محبت کا نام لیتے ہوئے بھی شرم اتی تھی۔ اسی لیے میں نے سوچ لیا تھا یونیورسٹی سے فارغ ہو کر اچھی ڈگری کے ساتھ جب بہترین جاب حاصل کر لوں گا تو پھر اماں بفرخانہ کے گھر رشتے کے لیے بھیجوں گا اور مجھے یقین تھا کہ وہ اپنے ایک لوٹے بیٹے کی خواہش کو کبھی رد کر ہی نہیں سکتی لیکن فحال میں مکمل طور پر اماں اور بہنوں پر۔ مگر جب میں یونیورسٹی سے فارغ ہوا اور وہ فرخندہ نے مجھے کہا کہ اسے بس مجھ سے شادی کرنی ہے، دولت بہت ہے اور بس میں گھر داماد بند کر رہوں گا بدلے میں وہ میری بہنوں کی شادیاں بھی امیر گھرانوں میں کرے گی اور اماں کو بھی اپنے ساتھ رکھے گی تو یوں مانے گویا میرے سر سے ایک بڑا پہاڑ اتر گیا تھا اور میں نے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کیا میں نے گھر جاتے ہیں جب اماں کے سامنے یہ ساری بات رکھی تو خوددار اماں کی تو جیسے خودداری پر ہی وار کر دیا۔ اماں مجھ سے بہت ناراض ہوئی کہ میں اپنی ذمہ داریوں سے نظریں چرا کر ایک عورت کے سر ڈال رہا ہوں بلکہ شادی کے بعد میں اسی کے پاس چلا جاؤں گا اور ہم ماں بیٹیاں ہاتھ ملتی رہیں گی میں نے بہت سمجھایا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا مگر اماں اپنی بات سے ایک فیصد بھی پیچھے نہ ہٹی اماں نے میرے لیے خود ہی ویزے کا بندوبست کر دیا اورمجھے کہا کہ ملک سے باہر جا کر نوکری کروں تو ہی وہ مجھے معاف کرے گی۔

میں اماں کی خوشی کے لیے دبئی جگہ ایا یہاں میں نے دن رات محنت مزدوری کی کئی کئی گھنٹے کام کر کے خوب پیسہ کمایا تاکہ میری بہنوں کی شادیاں جلدی سے اچھے گھروں میں ہو جائیں اس سارے عرصے میں فرخندہ مجھ سے رابطے میں رہی اور تواتر سے مجھے فون کر کے میری جدائی میں روکتی رہی اس نے میرا بہت انتظار کیا میں نے بھی اسے خوب وعدے کیے کہ میں واپس ا کر اس سے شادی کر لوں گا جب میں پانچ سال بعد واپس گیا تو بہنیں سب اپنے گھروں کی ہو چکی تھی اور اب اماں کو ایک لوٹے بیٹے کے سر پر چہرہ سجانے کی فکر ہونے لگی۔ میں نے ایک مرتبہ پھر اماں کو کہا کہ میں پرخندہ ہی سے شادی کروں گا اس کی خاطر میں نے اتنی قربانی دی ہے یہاں ایک مرتبہ پھر میری ماں نے اپنے ہی چلائی اور مجھے کہا کہ میں اس لڑکی کے عشق میں اتنا ڈوب چکا ہوں کہ جہاں اتنے سال قربانی بھی وہاں اسے حاصل کرتے ہی ہمیں بھول جاؤ گی وہ میری شادی فرخندہ سے نہیں کروائیں گی اگر میں نے اپنی مرضی سے کی تو ساری زندگی کے لیے وہ مجھ سے تعلق توڑ دیں گی۔ میں ایک مرتبہ پھر اماں کے سامنے خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا میں اپنی ماں سے حقیقتا بہت محبت کرتا تھا برا کل میری فرخندہ سے شادی نہ ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ اماں کی وہ زبان تھی جو انہوں نے خالہ کو دے دی تھی کہ وہ امی کی بیٹی کو میرے لیے بیاہ کر لائیں گی کیونکہ خالہ کے بھی ہم پر ان گنت احسانات تھے بچپن میں باپ کے انتقال کے بعد ہمارے سخت طبیعت تایا چاچا نے تو ہمیں نکال باہر کیا تھا اور ہر چیز میں سے حصہ چھین لیا جبکہ اس  میں خالہ ہی تھی جنہوں نے ہمیں سہارا دیا اور اج اما اسی احسان کا بدلہ ان کی بیٹی رہا کر چکانا چاہتی تھی۔

جبکہ اس کے متبادل بہت سے طریقے تھے مگر اماں کو اپنے لاڈلے بیٹے کی خوشیاں قربان کر کے ہی سکون ملتا تھا اور بہن کا احسان اتارنا تھا ایک دن میرے اور اماں کے درمیان اس بات کو لے کر خوب بحث ہوئی اور میں غصے میں کبھی نہ واپس انے کی دھمکی لے کر گھر سے نکل گیا  تھوڑی دیر بعد گھر سے کال ائی ہوئی تھی کہ اماں کو دل کا دورہ پڑا ہے اور اب وہ ہسپتال میں ہے میں بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچا اور ماں کی حالت دیکھڑک اٹھا میں نے اماں کے ہوش میں انے کے بعد ان سے معافی مانگی اور ان سے وعدہ کیا کہ جہاں وہ کہیں گی وہیں شادی کروں گا یوں اماں نے گھر انے کے بعد سب سے پہلا کام میری شادی کا ہی نمٹایا اور خالہ کی بیٹی بیاہ  میرے لیے لے ائی۔ میں نے اماں کی خوشی کے لیے شادی تو کر لی تھی لیکن دل سے اپنی بیوی کو اپنا نہیں پایا تھا اور اندر ہی اندر سے فرخندہ کی جدائی میں روتا رہتا میں نے پاکستان میں شادی کی اور کم ہی وقت گزارنے کے بعد دوبارہ سے دبئی واپس اگیا۔ میرے بیوی بھی بہت سمجھدار عورت تھی وہ جان چکی تھی کہ میرے دل میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں اسی لیے خاموشی کا بت بنی رہی لیکن مجھے اپنا بدلہ لینے کیلئے اس سے مناسب کوئی شخص نہیں ملا کیونکہ اگر وہ چاہتی تو یہ  شادی روک بھی سکتی تھی وہ جانتی تھی میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں مگر اس میں بھی یقینا  پیسوں کی خاطر ایسا نہیں کیا اسی لیے مجھے اپنی بیوی سے محبت نہ تھی جب بھی گھر کال کرتا تو اماں سے ایک گھنٹوں باتیں کرتا لیکن اماں اسے بھی فون کپڑا کہتی ہے اور وہ بھی ایسی چالاک تھی سرد مہری سے دوچار باتیں کرتی پھر پٹک کر مجھے کال کاٹ دیتی۔

شادی کے بعد میں ایک مرتبہ پاکستان گیا اور وہ بھی خاص پرخندہ سے ملنے کیونکہ اس کی سالگرہ آ رہی تھی اور میں اس موقع پر ہوٹل میں کمرہ بک کیا اور اپنے انے کی خبر ماں یا بیوی میں سے کسی کو نہ دی۔ میں کچھ دن فرخندہ کے ساتھ سکون سے گزارنا چاہتا تھا  جاتا تھا جس دن فرخندہ کی سالگرہ تھی میں قیمتی تحائف لے کر اس کے بتائے گئے ایڈریس پر پہنچ گیا ابھی کیک کٹنے میں تھوڑی دیر باقی تھی کہ اچانک میری نظر ہوٹل کے کونے میں رکھی ہوئی ٹیبل پر پڑی جس کے پیچھے میری بیوی بیٹھی ہوئی مجھے بہت غور سے دیکھ رہی تھی ایک لمحے کے لیے میں بھی چکرا کر رہ گیا اور اندر ہی اندر شرمندہ ہو گیا کہ اس سے کیسے معلوم ہوا میں پاکستان ایا ہوا ہوں  کچھ ہی دیر بعد فندہ بھی اگئی میں نے چاہا کہ یہاں سے نکل جاؤں لیکن فرخندہ کی محبت اور موقع کو دیکھتے ہوئے مجھے ایسا کرنا مناسب نہیں لگا اس لیے میں وہیں رہا بلکہ پارٹی شروع ہونے کے بعد میں نے فرخندہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے مزید اپنے قریب کر لیا تاکہ اپنی بیوی کو جلا سکوں اور اس طرح میں نے ساری پارٹی اٹینڈ کی۔ جبکہ میری بیوی سامنے بیٹھی کنکھیوں سے مجھے دیکھتی رہی۔ گھنٹے بعد جب تقریب ختم ہوئی اور سب مہمان جاچکے تو میں بھی اپنے ہوٹل کے لیے نکلنے لگا تو میری نظر غیر ارادی طور پر اسی میز کی جانب چلی گئی جہاں کچھ دیر پہلے میری بیوی براجمان تھی۔

مگر اب وہاں کوئی نہیں تھا مجھے دل میں ڈر تھا کہ وہ گھر پہنچ کر اب تک اماں کو سب کچھ سچ بتا چکی ہوگی اور ایک نیا طوفان کھڑا ہونا والا تھا میں نے ہوٹل پانچ کر ہی اپنا سامان جلدی جلدی سمیٹا اور ایمرجنسی فلائٹ کی ٹکٹ کروا کر دبئی روانہ ہو گیا تاکہ اماں سچ پتہ چلنے پر جب مجھے کال کرے گی تو میں انہیں جھوٹ بول کر اس مرتبہ اپنی بیوی کو پھنسانے میں کامیاب ہو جاؤں گا اس طرح ایک تیر سے دو شکار ہو جائیں گے میں نے دبئی پہنچ کر صرف فرخندہ کو فون پر بتایا کہ دفتر میں ایمرجنسی کی وجہ سے مجھے واپس انا پڑا اور خود اپنے گھر سے کال انے کا انتظار کرنے لگا۔ لیکن میری سوچ کے برعکس دو دن تک کوئی فون ہی نہ ایا یہ میرے لیے شدید حیرانی کی بات تھی دو دن کے بعد اخر کار اماں کا فون ا ہی گیا لیکن جیسے ہی میں نے فون کان سے لگایا تو روکتی چنگاڑتی ہوئی عورتوں کی اوازوں کے درمیان اماں کی اواز بھی سنائی تھی کہ میری بیوی مر گئی ہے یہ سنتے ہی میں ششدر رہ گیا اور کچھ کہہ ہی نہ سکا دو دن پہلے تک تو وہ ٹھیک ٹھاک تھی تو اس کا مطلب اس نے اماں کو کچھ بتایا ہی نہیں اور پہلے ہی مر گئی۔

یہ سوچتے ہی ایک سکون کی لہر میرے  پیر میں سرایت کر کے میں اب جانا تو نہیں چاہتا تھا لیکن دکھاوے کے لیے مجھے پاکستان جانا پڑا۔ جب میں گھر پہنچا تو جنازہ اٹھایا جا چکا تھا اور میری بیوی کو دفنا دیا گیا تھا اب مجھے مزید دنیا والوں کو اور ماں کو دکھانے کے لیے قبر پہ جانا پڑا جب میں وہاں پہنچا تو قبر کی گرد کچھ لوگ جمع تھے اور ابھی تازہ مٹی کا ڈالی گئی تھی اسی لیے میں بھی قبر کے دوسرے سرے پر کھڑا ہو کر جھوٹ سے رونے کا ناٹک کرنے لگا جب لوگوں نے دیکھا کہ میں اپنی بیوی کی جدائی میں زار و قطار رو رہا ہوں تو مجھے تنہائی کا احساس دلانے کے لیے سب وہاں سے چلے گئے میں بھی کچھ دیر تک سب کے جانے کا انتظار کرتا رہا اور پھر ایک نظر قبر پر ڈال کر وہاں سے اٹھنے لگا تو اچانک میرے کانوں سے ایک اواز ٹکرائی تیرے لیے شادی کے جوڑے میں ایک چیز چھپا کر رکھی ہے۔ میں اواز سنتے ہی خوف زدہ ہو گیا میں نے زندگی میں کبھی اتنا خوف محسوس نہیں کیا تھا میں اواز سنتے ہی وہاں سے فورا بھاگا اور گھر پہنچ کر ہی سانس ایا ڈر اور خوف سے پسینہ میرے جسم کے انگ انگ سے بہہ رہا تھا۔

میں سیدھا اپنے کمرے میں دوڑ کر گیا اور اپنی الماری کی جانب لپکا جس میں واقعی میری بیوی کے شادی کا جوڑا رکھا ہوا تھا اور اسے جب میں نے کھول کر دیکھا تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کیونکہ اس میں وہی جیولری سیٹ رکھا تھا جو میں نے کچھ دن پہلے فرخندہ کو اس کی سالگرہ کے موقع پر پہنایا تھا مجھے یاد ہے اس لمحے جب میں فرخندہ کو یہ زیورات پہنا رہا تھا۔ میری بیوی کی انکھیں غم و غصے سے سرخ ہو چکی تھی اور میں انہیں دیکھ کر لطف اندوز ہوتا رہا لیکن یہ سیٹ یہاں کیسے پہنچا تھا اور کیا میری بیوی میری بے وفائی کے صدمے سے مری تھی فی الحال میرے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا اور میرا ذہن بالکل معوف ہو کر رہ گیا تھا۔ میں نے اپنی حالت کے بارے میں گھر پر کسی سے ذکر نہ کیا اور رات تک کمرے میں ہی بند رہا رات کو جب میں اپنے بستر پر سویا تو ادھی رات کے بعد میری عجیب سی کیفیت ہو گئی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی میرے کمرے میں موجود ہے اور میرے ارد گرد چکر کاٹ رہا ہے۔

میں بہت زیادہ خوفزدہ ہو چکا تھا شاید مجھے اندر ہی اندر اپنی بیوی کی موت کا افسوس بھی تھا کہیں نہ کہیں میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا تھا کہ میں نے اس کے ساتھ غلط کیا لیکن اس سوچ کے ساتھ ہی شیطان میرے دل و دماغ پر قابض ہو جاتا اور فورا احساس دلاتا کہ اول روز سے ہی تو میں اس کے ساتھ کبھی پیار کیا ہی نہیں تھا بلکہ وہ تو شادی سے پہلے ہی میرے دل کی حالت جان چکی تھی تو پھر اس سے کیسی زیادتی۔ کچھ دن تک میرا ڈر اور میرا خوف قائم رہا اس کے بعد حالات نارمل ہو گئے لیکن یہ بات اب میرے لیے پریشانی کا باعث بن چکی تھی کہ جیولری کا یہ سیٹ یہاں کیسے ایا جبکہ اسے دو فرخندہ کے پاس محفوظ ہونا چاہیے تھا اپنی بیوی کی اخری چند رسومات کی ادائیگی کے بعد ایک دن میں نے فرخندہ سے ملنے کا پلان بنایا اور اسے ملنے اس کے گھر کا انتخاب کیا میں نے ادھر ادھر کی باتوں کے بعد اس سے پوچھا کہ وہ زیورات کہاں ہے جو میں نے اس سے سالگرہ پر دیے تھے۔ وہ کہنے لگی میرے پاس محفوظ ہیں میں نے وہ سیٹ دیکھنے پر اصرار کیا تو فرخندہ اسے اپنے کمرے میں لینے چلی گئی اور تھوڑی دیر بعد یہ دیکھ کر میری انکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی کہ سیٹ صحیح سلامت فرخندہ کے پاس ہی تھا۔

لیکن مجھے سمجھ اگئی تھی کہ جاتے جاتے میری بیوی نے مجھ سے بدلہ لینے کی کوشش کی ہے خدانخواستہ اگر اس دن ڈر سے میرا دل بھی بند ہو جاتا تو اس وقت میری قبر بھی اس کے پہلو میں بن گئی ہوتی میں فرخندہ سے مل کر پرسکون دل کے ساتھ گھر لوٹا اور اماں کے پاس بیٹھ گیا اماں مجھ سے میری بیوی کے متعلق باتیں کرنے لگی کہ وہ ایک ذہین لڑکی تھی میں نے دل میں سوچا اس کی ذہانت کا تو میں قائل ہو چکا ہوں اس نے میرے خریدے گا جیولری سیٹ سے ملتا جلتا سیٹ نہ جانے کہاں سے ڈھونڈ نکالا تھا۔ اب ایک اور ضروری کام جو مجھے کرنا تھا وہ میں نے اسی روز کر دیا اس رات جب سب سو گئے تو میں چپکے سے قبرستان چلا ایا میں نے کچی قبر کو صرف ایک سرے سے کھود کر اندر جھانکا اندر کفن میں لپٹا ہوا مردہ وجود تھا تسلی کر لینے کے بعد میں نے قبر کو بند کر دیا اور اگلے دن مزدور بلوا کر قبر کو پکا کروایا اور پھر لوہے کی گرل میں بند کر دیا۔ اس طرح میرا مزید خوف بھی جاتا رہا کچھ دن بعد اماں میرے پاس چلی ائی اور مجھ سے دوسری شادی کا کہنے لگی میرے تو دل کی مراد بھر ائی میں کب سے اسی موقع کے انتظار میں تھا میں نے جھٹ سے کہہ دیا کہ اب تو وہ میری شادی فرخندہ سے کرتے کیونکہ وہ اج تک میرے انتظار میں بیٹھی ہوئی ہے اس بار حیرت انگیز طور پر بغیر کسی تکرار کے اماں نے حامی بھر دی اور میں بھی خوش ہو گیا۔

میں نے فرخندہ کو اسی وقت فون کر کے کہا کہ میرے پاس اس کے لیے اچھی خبر ہے اور میں یہ سب اسے اپنے سامنے بٹھا کر بتانا چاہتا تھا اس رات جب میں اپنے بستر پر گیا اور پرسکون نیند سو گیا تو ایک دل خوفناک چنگاڑتی ہوئی اواز سے میں اٹھ بیٹھا۔ اندھیرے میں مجھے کچھ سجھائے ہی نہیں دیا  صرف میری بیوی کی اواز ارہی تھی کہ میں قبر بند کروا کر بھی اس سزا سے کبھی چھٹکارا حاصل نہ کر سکوں گا میرے دو ہاتھوں کے طوتے اڑ گئے کہ کوئی مردہ کیسے ایسے کر سکتا ہے ایک ہی اواز مسلسل ارہی تھی اور میں تھر تھر کانپ رہا تھا اخر کار میں نے ہمت کر کے جلدی سے بدتی جلائی تو دیکھا کہ میرے بیٹھ کے قریب ایک ٹیپ ریکارڈر رکھا ہوا تھا اور یہ اواز اس کے اندر موجود کیسے میں ریکارڈ تھی لیکن یہ سب کیسے ممکن تھا۔ میرے ذہن میں ایک اور خیال ایا کہ کیا کوئی میرے ساتھ مذاق کر رہا ہے مگر کوئی ایسا کیوں کرے گا یہ میری بیوی کی روح ہی تھی اس کے علاوہ کوئی میرا دشمن کبھی نہیں ہو سکتا تھا میں نے ہاتھ مار کر ٹیپ ریکارڈر کو زمین پر پھینک دیا جس سے وہ بند ہو گیا اب تو مجھے 100 فیصد یقین ہو گیا کہ بچپن میں پڑی ہوئی وہ سبھی کہانیاں سچی تھی، جن میں یہ بتایا جاتا تھا کہ کوئی روح مرنے کے بعد اپنے دشمن سے انتقام لیتی ہے میری بیوی بھی اب یہی کر رہی تھی اور مجھے ذہنی طور پر کمزور کر کے مارنا چاہتی تھی اس پر بھی مزید حیرانے کی بات یہ تھی کہ ٹیپ ریکارڈر کی اواز گھر میں کسی اور نے نہ سنی اور سنتا بھی کوئی کیسے ایک اماں ہی تو تھی جو رات نیند کی دوا لے کر سوتی تھی۔ میں نے ایک نظر کمرے پر دوڑائی تو اس کا فرنیچر اور سب کچھ میری بیوی کے جہیز کا تھا اس رات میں سو نہ سکا اور مسلسل ساری رات جاگ کر سوچتا رہا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟

کیا میں اپنا راز گھر میں سب کو بتا دوں لیکن ایسے تو اماں کو میرے تمام جھوٹوں کا پتہ چل جائے گا جو میں نے ان سے بول رکھے تھے اور وہ میری فرخندہ سے شادی نہیں کروائیں گی۔ مجھے ایک آخری حل جو بہتر لگا میں نے وہی کیا اور صبح سویرے یہ سب کچھ کمرے سے نکالنے لگا لیکن اماں اڑے ا گئی اور کہنے لگی کہ یہ سب اس کی بہو کی نشانی ہے اسی لیے وہ گھر سے نہیں نکالنے دیں گی البتہ دوسرے کمرے میں ڈالنے کی اجازت دے دی میں نے مرتا کیا نہ کرتا کہ مسداق سب کچھ نکال کر دوسرے کمرے میں شفٹ کر دیا اس دن میں نے سوچا کہ کیوں نہ پرخندہ سے ملاقات کی جائے اور اسے بتایا جائے کہ اماں ہماری شادی کے لیے مان گئی ہیں۔ میں نے اسے کال کی اور ملنے کے لیے بلایا اس نے ہوٹل پہنچنے میں دیر کر دی اس دوران میں نے بیرے کو چائے لانے کا حکم دیا اور خود فرخندہ کا انتظار کرنے لگا اپنی سوچو میں گم جو ہی میری نظر سامنے اٹھی تو مجھے لگا ہوٹل کے باہر شیشے کی دیوار کے اس بار میری بیوی کھڑی مجھے گھور رہی ہے۔ اس کی انکھوں میں عجیب مسکراہٹ تھی میں فورا گھبرا کر اٹھا اور اس کی طرف لپکا لیکن چند سیکنڈ سے بھی کم وقت میں وہ وہاں سے غائب ہو چکی تھی۔

میری دماغی حالت شدید خراب ہو گئی اور میں مسلسل ذہنی دباؤ کا شکار ہو چکا تھا میں فرخندہ سے ملے بغیر گھر نہیں جانا چاہتا تھا لیکن میری بگڑتی حالت مجھے گھر جانے پر اکسا رہی تھی اور میں فرخندہ کو اچھی خبر برے ماحول میں نہیں سنانا چاہتا تھا اسی لیے اسے ملے بغیر ہی گھر واپس اگیا جب میں گھر ایا تو اماں نے مجھ سے پوچھا کہ رشتہ مانگنے کب جانا ہے میں نے انہیں کچھ دن انتظار کرنے کا کہا اور خود کو کمرے میں بند کر لیا کچھ دن تک سب کچھ نارمل رہا اور رات میں بھی کوئی پراسرار واقعہ نہ پیش ایا شاید میری بیوی کی روح مجھے فرخندہ سے ہی رشتہ بنانے سے روک رہی تھی۔ میں نے اس سوچ کے اتے ہی خود کو ملامت کیا کہ دنیا میں روح نامی کوئی شے نہیں ہوتی اور نہ ہی انتقام لیتی ہے یہ سب میرے ذہن کا فتور ہے مجھے کسی نفسیات کے ڈاکٹر سے ملنا چاہیے اس سلسلے میں مجھے اپنے ایک دوست کا نمبر مل گیا جو نفسیات کا بہترین معالج تھا میں اگلی شام اس کے پاس پہنچ گیا اور اسے اپنی ذہنی کیفیت بیان کی جس پر اس نے مجھے لمبا چوڑا لیکچر دیا جس کا مختصر خلاصہ یہی تھا کہ اس سب ڈر و خوف کا تعلق میرے اپنے ذہن سے ہی ہے میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے نکل کر کسی کیفے کا رخ کیا جہاں بیٹھ کر میں کچھ دیر کافی پی سکوں۔

جب میں کیفے میں داخل ہوا تو میری نگاہوں نے چاروں طرف کا جائزہ لیا اور ایک میز پر ایک منظر دیکھ کر میں وہیں ٹھٹک کر رک گیا۔ اس میز پر مجھے فرخندہ کسی نوجوان کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف نظر ائے میں تیزی سے اس طرف بڑھا مجھے قریب اتا دیکھ کر بھی فرخندہ کا چہرہ پرسکون رہا اور اس نے ایک دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ مجھے سلام کیا اور جب اس نے اپنے ساتھ بیٹھے نوجوان سے یہ کہہ کر تعارف کروایا کہ وہ اس کا منگیتر ہے اور بہت جلد وہ دونوں شادی کرنے والے ہیں میرے تو سر پر بمبھٹ گیا میں نے وہاں سے اٹھنا ہی مناسب سمجھا اور باہر نکل ایا میرا ذہن اب تک فرخندہ کے لفظوں میں اٹکا ہوا تھا میں نے اس کے نکلنے کا انتظار کیا اور جب وہ اپنے گھر کے قریب پہنچی تو میں نے اس کا رستہ روک لیا۔

اس نے مجھے یوں دیکھا جیسے جانتی ہی نہ ہو میں نے فرخندہ سے پوچھا کہ اس نے میرے ساتھ یہ کھیل کیوں کھیلا تو وہ بہت سکون سے جواب دے گئی کہ اس سے اب مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی ویسے بھی اگر مجھے اس سے سچی محبت ہوتی تو میں پہلی شادی نہ کرتا اور سب کچھ چھوڑ کر اس کے پاس چلا اتا میں نے اسے بتایا کہ میں اپنی ماں کو  ا چکا ہوں لیکن اس نے میری ایک نہ سنی اور وہاں سے چلی گئی اس سے زیادہ تذلیل میری زندگی میں کبھی نہ ہوئی تھی۔ اب تو مجھے یہ احساس بچھو بن کر ڈسنے لگا کہ جس کی خاطر بیوی سے بے وفائی کی اس نے بھی اج مجھے بے وفائی اور جھوٹ کی سزا دے ڈالی تھی۔ میں ایک ہارے ہوئے شخص کی طرح گھر لوٹ ایا میں نے سارے حالات سے نکلنے کے لیے اپنے ایک دوست کی مدد لی کیونکہ میری ذہنی حالت اکیلے رہنے والی نہیں تھی میں اس کے پاس چلا ایا وہی میں نے اماں کو فون پر بتایا کہ اج رات میں یہیں ہوں مگر نہ جانے مجھے کیوں چین نہ اتا تھا فرخندہ کی بے وفائی اور جدائی کا زخم گہرا تھا میرا دل کہیں نہیں لگ رہا تھا رات دیر سے میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے گھر جا کر ہی ارام کروں میں رات دیر سے گھر واپس ایا گھر کی ایک چابی میرے پاس موجود ہوتی تھی میں گھر کا دروازہ کھول کر اپنے کمرے میں چلا ایا اور جب بتی جلائی تو یہ دیکھ کر میرا سانس بند ہونے کے قریب تھا کہ بیڈ پر میری بیوی سو رہی تھی یہ میری انکھوں کا دھوکا ہرگز نہیں ہو سکتا تھا اور اس کے چہرے پر سکون دیکھ کر نہ لگتا تھا کہ وہ کوئی بدلہ لینے والی رو ح ہے مگر مجھے نہ جانے کیا ہوا کہ میں ایک زوردار چیخ کے ساتھ باہر کی طرف دوڑا اور سامنے سے اتی اماں بھی میری حالت دیکھ کر ڈر گئی۔

کچھ ہی دیر بعد میری بیوی بھی گھبرائی ہوئی باہر نکل ائی میں نے اس کی طرف اشارہ کر کے اپنی ماں سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے تو میری ماں اور بیوی کے چہرے ایسے ہو گئے جیسے ان کی کوئی بہت بڑی چوری پکڑی گئی ہے میں بھی کچھ کچھ معاملہ سمجھ چکا تھا مگر اماں اب بھی پرسکون کھڑی تھی اور اہستہ اہستہ اس نے سارے حالات بیان کرنے شروع کیے بقول اماں کے انہوں نے میری شادی کر دی اس کے بعد بھی جب میں فرخندہ کی محبت چھوڑنے پر تیار نہ ہوں تو انہیں سنجیدگی سے اس بارے میں سوچنا پڑا اور مجھے سدھارنے کے لیے انہیں ایک منصوبہ بنانا پڑا۔ اس کے لیے میری بیوی نے سب سے پہلے فرخندہ سے دوستی کی جس سے اسے میرے بارے میں ہر اطلاع ملتی تھی اس نے فرخندہ کو کچھ اس طرح سے شیشے میں اتارا کہ وہ کبھی جان ہی نہ سکی کہ اس کی دوست کی حقیقت کیا ہے ایسے میں جب میں پاکستان گھر والوں کو بتائے بغیر فرخندہ کی سالگرہ پر ایا تو میری بیوی پہلے ہی سے جانتی تھی اس نے مجھے ایئرپورٹ پر دیکھ لیا اور میرا پیچھا کیا اس دن گھر ا کر ماں جی کو ساری صورتحال سے اگاہ کیا اس کے بعد اماں نے میری بیوی کے ساتھ مل کر ایک پلان ترتیب دیا اس پلان کی ماسٹر مائنڈ میری سمجھدار بیوی تھی اور اس نے ہی یہ سب ناٹک کیا تھا اس کے بعد وہ فرخندہ کی سالگرہ کی تقریب میں بھی شامل ہوئی اور بعد میں جب اس نے فرخندہ سے کہا کہ اسے وہ سیٹ پسند ہے اور تحفے میں چاہیے تو فرخندہ نے دے دیا اس کے بعد میری بیوی نے پلان ہی پر عمل کیا اور اپنی جھوٹی موت کا ڈرامہ رچایا جس سے میں پاکستان ایا تاکہ اگلے پلان پر عمل کیا جائے۔

اس دن اس نے دنیا کا سب سے خطرناک ترین کام کیا اور کئی گھنٹوں کفن میں لپٹی قبر میں پڑی رہی قبرستان میں گونجنے والی اواز بھی اسی کی تھی لیکن شاید اج کی قسمت نے اس کا ساتھ نہ دیا کیونکہ اج سچائیاں سامنے انے کا دن تھا اور سب کے چہرے بے نقاب ہونے والے تھے ان سب میں میری ماں بھی اس کا سہارا بنی ہوئی تھی۔ لیکن ان کی یہ ساری محنت بیکار نہ گئی اور فرخندہ نہیں کسی اور سے شادی کر کے مجھے ہمیشہ کے لیے نکال دیا مجھے جب یہ سب پتہ چلا تو میں اپنی ماں اور بیوی سے کئی دن ناراض رہا میں مسلسل ذہنی طور پر بیمار رہا لیکن اس کے بعد میری بیوی نے مجھے خوش رکھنے اور زندگی میں خوبصورت رنگ بھرنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی اور میں نے بھی اس کی محنت کے بدلے اسے دل سے قبول کر لیا جس کے بعد اج مجھے ایک وفا شوار اور وفادار عورت کا ساتھ میسر ہے زندگی بہترین گزر رہی ہے مگر کبھی کبھی فرخندہ کی بے وفائی دل کو اداس کر دیتی ہے۔