
خدیجہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئی تھی۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں سے چوتھے نمبر پر تھی ان کا گھر چھوٹا سا تھا لیکن ماں باپ کا دل بہت بڑا باپ کے درزی تھا۔ مان سادہ گھریلو فورت دن بھر کر سنبھالتی بچوں کو دعائیں دیتی اور چھوٹے چھوٹے خواب اپنی بیٹیوں کے لیے سمیٹتی خدیجہ بچپن سے ہی نرم دل اور خاموش مزاج تھے۔ بچوں کے کھیل میں بھی وہ دوسروں کی خوشی کا خیال رکھتی ہیں جب بھی کوئی نیا کپڑا اتا وہ کہتی پہلے بہن کو دے دو میں بعد میں پینٹ لوں گی ماں اکثر کہا کرتی یہ بچی دنیا کے شور میں بھی اللہ کو نہیں بھولے گی۔ خدیجہ نے گاؤں کے اسکول سے اٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی پھر ماں کی طبیعت خراب رہنے لگی اور خدیجہ نے خود یہ گھر کے کام سنبھال لیے چپ چپ سب کی ضرورت پوری کرتی، کبھی کسی سے شکایت نہ کرتی، خاموشی میں بھی محبت بولتی تھی۔
خدیجہ کی جوانی وہ دور تھا جب زندگی کا سادہ مگر مشکل سفر شروع ہو چکا تھا میرے دیتے ہوئے اس کے پاس زیادہ وسائل نہیں تھے پھر بھی اس نے کبھی غربت کو اپنی کمزوری نہیں سمجھا۔ اس کی جوانی کا بیشتر حصہ وہ غربت کے مقابلے میں مضبوطی بننے کی جدوجہد میں گزرا غربت کا سامنا کرتے ہوئے بھی خدیجہ نے اپنے خوابوں کو دم توڑنے نہیں دیا چاہے وہ پڑھائی ہو یا کبھی خوشبو کا خواب جو اس نے اپنے دل میں چھپائے رکھے تھے۔ خدیجہ نے کبھی بھی اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش نہیں چھوڑی تھی ہر دن محنت میں گزرتا اور ہر رات خدیجہ اپنے والد کے لیے دعا کرتی۔ خدیجہ کو یاد اتا جب بھی رات کو جان کی روشنی میں کھڑکی سے باہر دیکھتی دل میں ایک خواب جاگتا تھا کہ شاید کبھی میری زندگی بدل جائے گی خدیجہ کی ایک سہیلی تھی جس کا نام صبا تھا صبا اور خدیجہ بچپن سے ہی بہت اچھی دوست تھیں۔
لیکن دونوں کی زندگیوں کی رائے جدا دی سبق کا خاندان مالی طور پر بہت بہتر تھا اور وہ کبھی نہیں سمجھ پائی کے خدیجہ کو کتنی مشکلیں درپیش ہیں لیکن پھر بھی اس صبا کی دوستی نے خدیجہ کا دل کبھی نہیں چھوڑا صبا جب بھی خدیجہ کے گھر اتی۔ وہ اس کی حوصلہ افزائی کرتی کہ تم بہت اہمیت والی ہ،و خدیجہ تم جو چاہو کر سکتی ہو، خدیجہ کبھی سوچتی کہ یہ سب کہنا اسان ہے کیونکہ اس کے پاس سب کچھ تھ۔ا مگر خدیجہ کے پاس صرف خواب دعائیں اور عزت تھی۔ ایک دن جب خدیجہ کے والد بیمار ہو گئے اور پورے خاندان کو مشکل وقت کا سامنا تھا صبا نے خدیجہ سے کہا خدیجہ مجھے تم سے ایک بات کہنی ہے تم کیوں نہیں میرے والدین سے کچھ پیسے مانگ لیتی ہم تمہیں مدد دے سکتے ہیں لیکن خدیجہ نے انکار کیا اور کہا صبہ میں تمہاری مدد کی شکر گزار ہوں لیکن میرے لیے عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ اللہ پر بھروسہ رکھوں گی اور وہی میری مدد کرے گا۔
خدیجہ کا دکھ یہ تھا کہ وہ اپنی سہیلی صبا کی طرح نہیں تھی جس کے پاس ہر چیز تھی صبح کا رشتہ بھی طے ہو چکا تھا اور اس کی زندگی میں کبھی کبھی کوئی مشکل نہیں ائی جبکہ خدیجہ کو جیسے ہی کچھ بہتر ہوتا ایک اور امتحان سامنے ا جاتا۔ اس کے باوجود خدیجہ نے کبھی بھی اپنی زندگی کی حقیقت کو نہیں بدلا وہ اور ہمیشہ اپنی سحری کے سامنے صبر اور حسن سلوک جیتی ایک دن بہت سالوں بعد خدیجہ اور صبا کا دوبارہ سامنا ہوا سبق وہ خدیجہ کی زندگی کے حالات کا اندازہ نہ تھا اور وہ حیران رہ گئی خدیجہ نے مسکرا کر کہا صبا تم نے کہا تھا کہ تم مجھے مدد دو گی لیکن میں نے ہمیشہ اللہ پر بھروسہ کیا اور وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہا۔ صبا نے خدیجہ کے دل کی گہرائی کو سمجھا اور کہا تم نے جو زندگی گزاری وہ واقع ہی ایک ہمت کی داستان ہے۔ خدیجہ تم نے جو سیکھا وہ میں کبھی نہیں سیکھ سکی۔
اٹھارہ سال کی عمر میں خدیجہ کی شادی ایک قریبی شہر میں رہنے والے فیاض سے ہوئی۔ ایک محنتی لیکن تھوڑا سخت مزاج ادمی رشتہ خاندان والوں نے پسند کیا تھا خدیجہ نے دل سے قبول کیا ماں باپ نے رخصت کرتے ہوئے بس اتنا کہا بیٹی زندگی کبھی اسان نہیں ہوتی مگر مسکراہٹ ہمیشہ زندگی کو خوبصورت بناتی ہے۔ شادی کے کچھ سال بعد اللہ نے انہیں ایک بیٹا عطا کیا سلمان خدیجہ نے پورے دل سے مان کر ماں بن کر خدیجہ نے پورے دل سے ماں بن کر اس کی پرورش کی مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ چند سال بعد فیاض میں سڑک حادثے میں دنیا سے چلا گیا۔ تب سے خدیجہ کا نیا سفر شروع ہوا، صبر کا سفر۔ اب خدیجہ ایک پرانے سے مکان میں رہتی ہے نہ بہت چھوٹا نہ بہت بڑا ایک کمرہ ایک چھوٹا سا صحن اور ایک خاموشی جو ہر رات اس کے دل کے ساتھ ہوتی ہے۔ پڑوس والے اسے صابرہ کے نام سے جانتے ہیں کیونکہ اس نے کبھی کسی سے شکایت نہیں کی۔
لیکن خدیجہ کا بیٹا بیمار رہنے لگا تھا۔ مگر خدیجہ کا دل بہت بڑا تھا وہ اکثر دعا کرتی یا اللہ میرے بیٹے کو شفا دے میں کچھ نہیں کر سکتی بس تجھ پر بھروسہ ہے ایک دن صبح کے وقت خدیجہ کے دروازے پر ایک فقیر ایا گھر میں صرف ایک ہی روٹی بچی تھی جو بیٹے کے لیے رکھی تھی فقیر نے سدا دی اللہ کے نام پر دے دو بھوکا ہوں خدیجہ کے ہاتھ کانپے ایک لمحے کو سوچا کہ یہ روٹی اگر بیٹے کو نہ دی تو وہ کمزور ہو جائے گا اور اگر فقیر کو دے دی تو شاید اللہ راضی ہو جائے اس نے روٹی فقیر کو دے دی۔ دل تھوڑا بے چین تھا مگر انکھوں میں سکون تھا اس رات کئی مہینوں بعد اس کا بیٹا گری نہیں سویا بغیر دوا کے۔ اگلی صبا بیٹا مسکرا رہا تھا اور خدیجہ کے دل میں اواز ائی تو نے میرے بندے کو کھلایا ہے میں نے تیرے بیٹے کو شفاء دی ہے۔ اس کا سبق یہ ہے کہ زندگی میں بہت فیصلے مشکل ہوتے ہیں لیکن جب نیت خالص وہ اور دل اللہ کی رضا پر ہو تو وہ چھوٹا سا صدقہ بھی اللہ کی رحمت کا دروازہ کھول دیتا ہے۔