Main Arbi Aurat ka Driver Tha Or Apni Biwi ko Ghar Cy Bula lya

new urdu kahani

میں کل رات سے بھوکا تھا۔ میڈم کے ساتھ ساری رات باہر رہنے کی وجہ سے میں کچھ بھی کھا پی نہیں سکا تھا ابھی گرما گرم ناشتہ دیکھا تو منہ میں فورا پانی اگیا۔ فورا سے ناشتہ کرنے لگا، ابھی چند موالے ہی منہ میں ڈالے تھے کہ ایک ملازم میرے پاس ایا اور ا کر کہنے لگا محمد عتیق تو میں میڈم اپنے پاس بلا رہی ہے خوش قسمتی کی بات تو یہ تھی کہ یہ بھی میری طرح ایک پاکستانی تھا اور ہم دونوں ہی ایک دوسرے کی باتوں کو اچھے سے سمجھ سکتے تھے۔ ویسے بھی اس گھر کے باقی ملازمین عربی زبان میں ہی بولا کرتے تھے مگر چونکہ اس ملازم کو تھوڑی بہت عربی ایا کرتی تھی وہ مجھے بھی سکھا رہا تھا اور میں خود بھی اس کی زبان میں اور کچھ سمجھنے لگ گیا تھا میں نے برا سا منہ بنا کر اس ملازم کو دیکھا اور کہنے لگا کہ ابھی تھکا ہارا بیٹھا ہوں ناشتہ تو کریں پھر میڈم کی بات بھی سن لیتا ہوں مگر اس نے سختی سے کہا کہ میڈم تمہیں ابھی کے ابھی اب کمرے میں بلا رہے ہیں اگر تم نہ گئے تو تمہیں پتہ ہے نا ان کا وہ کس قدر غصے کی تیز ہے اتنا سننا تھا کہ میں جھرجھری لے کر رہ گیا میڈم کے غصے سے اخر کون واقع ہونا تھا۔

وہ جتنی مہربان تھی اس سے زیادہ ہی غسیلی تھی ایک بار ایک ملازم نے ان سے بیوی کی بیماری کا جھوٹ بول کر ان سے کچھ پیسے لے لیے جبکہ اس نے اپنی بیوی کو شادی کا ایک مہنگا تحفہ دینا تھا جب میڈم کو پتہ چلا تو غصے میں ا کر اسے نوکری سے ہی نکال دیا تھا میں تو کم از کم اس وقت نوکری نہیں چھوڑ سکتا تھا اخر کو پورے ٹبر کی ذمہ داری مجھ پر تھی میں ایک ترستی ہوئی نظر ناشتے ب ڈالی اور پھر ہاتھ پہنچ بیٹھا تھا ہمارا کوارٹر میڈم کے عالی شان محل جیسے گھر کے عقب میں واقع تھا ۔میں گھر میں داخل ہوا تو میڈم اپنے کمرے میں صوفی پر بیٹھی کچھ سوچ رہے میں 10 تک دیکھ کر کمرے میں داخل ہو گیا تھا میڈم میری مجو کی محسوس کی تو اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ میں نے یہ فیصلہ سی نے کہا میڈم کے چہرے پر ڈالی تھی گیلا شعبہ وہ تب بھی خاتون تھی اور بلا کی حسین اور پرتشی شخصیت کی مالک تھی   اور پھر تشی شخصیت کی مالک تھی ان کی عمر 30 سے 35 سال کے درمیان مگر اج بھی وہ کسی دوشیزہ سے کم نا لگا سکتی تھی وہ بہت ہی زیادہ خوبصورت تھی ہر وقت زیورات سے لیس رہا کرتی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہ قیمتی زیور ان کی خوبصورتی میں مزید چار چاند لگانے کے لیے ہی بنا ہے۔

پھر وہ کہنے لگی کہ محمد عتیق تمہاری بیوی پاکستان میں کیا کام کرتی ہے میڈم کے منہ سے یہ سنا تو میں چوم کر ان کی جانب دیکھنے لگا بھلا وہ میری بیوی کے بارے میں کیوں پوچھ رہی تھی میں نے میڈم کی جانب ایک نظر اٹھا کر دیکھی اور پھر فورا بولا کہ میڈم وہ تو ایک گھریلو پردہ دار خاتون ہے گھر میں رہ کر گھر کے کام کاج میں میری اماں کا ہاتھ بٹاتی ہے میڈم نے جب یہ سنا تو کچھ سوچتے ہوئے کہنے لگی تم اپنی بیوی کو یہاں بلا لو میں نے میڈل کی یہ بات سنی تو میرے ہوش اڑ گئے۔ میں تو سوچ میں پڑ گیا کہ میڈم نے یہی کہا ہے یا کچھ چھوڑ میں نے میڈم کو کہا کہ وہ تو کبھی گھر سے باہر نہیں نکلی بھلا یہاں ا کر کیا کرے گی میڈم نے مجھ پر ایک سخت نظر ڈالتے ہوئے باہر جاری رکھی تھی کہنے لگی مجھے ایک عدد ملازمہ کی اشر ضرورت ہے میں نے حیران کی سے میڈم کی جانب دیکھا تو ان کے پاس تو اتنے نوکر طاقت تھے اور سعودی عرب میں کیا ملازموں کی کمی ہو گئی تھی جو میری بیوی کو پاکستان سے یہاں لانا چاہتی تھی۔

میں نے پہلی بار میڈم کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر دیکھا اور ان سے کہنے لگا کہ میڈم جی میری بلی بھلا اپ کی ملازمہ بن کر کیوں کام کرے گی اسے یہاں پر لانے کا سچا پھر اس کے رہنے کا خرچہ مجھے اپنی تنخواہ سے ہی پورا کرنا پڑے گا میں اپ کو یہیں سے کوئی ملازم ڈھونڈ دیتا ہوں یہ اپنا چھوٹا بھائی بلوا دیتا ہوں۔ مگر میڈم صاحبہ نے ایک طرف بھول چکے ہو کہ تم اس وقت کہاں کھڑے ہو اور کس سے بات کر رہے ہو مگر تمہاری یاد دہانی کے لیے میں تمہیں یاد دلا دوں کہ تم اس وقت میرے محل میں کھڑے ہو کر مجھ سے ہم کلام ہو رہے ہو تم اس کمرے میں کھڑے ہو یہاں پر اج تک بڑے بڑے شیخ انے سے کتراتے ہیں جنہیں میں نے اج تک اپنے عالی شان گھر کے گیسٹ روم تک ہی محدود کر رکھا ہے اور تم میرے ملازم ہو کر ہی مجھ سے سوال جواب کر رہے ہو کہ تم اپنی بیوی کو یہاں پر کیوں بلواؤں میڈم کے منہ سے جب میں نے یہ سنا تو میری کان کی لوویں تک گرم ہو چکی تھی۔ میں شرمندگی سے سر جھکا کر میڈم سے معافی مانگنے لگا بھلا میں کیسے اپنی اوقات کھول سکتا تھا ہاں یہ بات بھی سچ تھی کہ سب ملازموں میں میڈم میری بہت زیادہ قدر کیا کرتی تھی میں ان کا خاص ملازم تھا اور ان کے گھر کے ضروری کام کاج کے ساتھ ساتھ ان کو کہیں بھی جانا ہو وہ مجھے لے کر ہی جایا کرتی تھی۔ میں ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا ڈرائیور بھی تھا اور وہ مجھے ہر ماہ تنخواہ ویسے میری تنخواہ سے بڑھ کر پیسے بھی دیا کرتی تھی اور کہتی تھی کہ تم بہت محنت کرتے ہو اس سے بیوی کے لیے کچھ تحفے تحائف بھی خرید لینا اور میں اج ان کی نیکی کا یہ صلہ دے رہا تھا سچی کہا تھا کسی نے کہ میں اپنی اوقات بھول چکا ہوں۔

میں نے فورا میڈم کے اگے ہاتھ جوڑ دیے اور ان سے معافی مانگنے لگ گیا تم اسے گستاخی ہو گئی ہے مجھے معاف ڈالی اور پھر مجھ سے کہنے لگی مجھے اپنے شوہر کی دیکھ بھال کے لیے ایک ملازمہ کی اشہ ضرورت ہے تم اسے یہاں بلاؤ اسے تمہارے ملک کے پیسوں کے مطابق پانچ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ دوں گی اگر اس نے اچھا کام کیا تو وقت کے ساتھ ساتھ اس کی یہ تنخواہ بڑھ جائے گی۔ میں نے جب یہ سنا تو میری انکھوں میں پیسوں کی چمک ابھری تھی اتنے زیادہ پیسے میں تو ماہانہ دو لاکھ سے کچھ اوپر ہی کروا سکتا تھا اگر میری بیوی بھی یہاں اگر کام کرنے لگ جائے تو ہم دونوں مل کر ارام سے سات سے اٹھ لاکھ کما سکتے تھے اتنا سوچنا تھا کہ میں خوش ہو گیا اور میڈم سے کہنے لگا کہ اپ بے فکر ہو جائیں میں کل ہی اپنی بیوی کو یہاں بلاتا ہوں اور ہم دونوں اپ کی نوکری کریں گے۔

میڈم کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی تھی میں فورا بھاگ کر اپنے کوارٹر میں ایا میری تو ساری بھوک ہی مٹ چکی تھی۔ سارا دھیان اپنی بیوی کی جانب تھا میں نے فورا اسے کال ملائی وہ اس وقت دوپہر کا کھانا بنا رہی تھی میری خوشی اس سے بھی چھپی نہ رہ سکی تھی مجھے خوش دیکھ کر وہ مجھ سے پوچھنے لگی کہ محمد عتیق تم اس قدر خشک کیوں ہو لگتا ہے اج میڈم سے تمہیں تنخواہ ملی ہے میں مسکرا کر بولا ارے نہیں پگلی تمہارے لیے خوشخبری ہے تم کہتی تھی نا کہ تم یہاں انا چاہتی ہو عمرہ کرنا چاہتی ہو اور یہاں پر میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو میری بات سن کر بیوی تو خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی اور کہنے لگی ہاں میری تو یہی خواہش تھی میں تمہارے ساتھ ڈھیر سارے کہ تم سعودی عرب چلے گئے تھے میں نے یہ خبر بی بی کو سنائی تو وہ خوشی سے جھوم اٹھی کہنے لگی کہ وہ نوکری کرنے کے لیے تیار ہیں اس کے تمام تر معاملات میڈم نے ہی دیکھے تھے اور پھر کچھ ہی دنوں بعد میری بیوی میرے پاس سعودی عرب چلی ائی۔

فریدا میرے پاس ا کر بے تحاشہ خوش و خرم کی میں اس کو میڈم کے پاس  لے کر گیا تو میڈم نے اس کے چہرے پر ایک نظر دوڑائی اور مسکرا کر اسے سینے سے لگا دیا تھا میڈم دل کی بے حد اچھی تھی ورنہ نوکر کی بیوی کو تو ان سینے سے لگا گاتا تھا میڈم میری بیوی کو دیکھ کر کہنے لگی کہ تمہاری بیوی تو بے حد حسین و جمیل ہے بالکل ویسے ہی جیسے تم نے اپنے موبائل میں دکھائی تھی۔ میں خوشی سے شرما گیا تھا جبکہ فریدہ بھی اپنی تعریف سن کر شرم سے سر جھکا گئی میں اپنی بیوی کو یاد کر کے بے حد افسردہ ہوا کرتا تھا میرا کچھ اخلاق بھی اچھا تھا میڈم جلد ہی میرے ساتھ مانوس ہوگئی تھیں۔

ایک دن کہنے لگیں اپنی بیوی کی تصویر تو دکھاؤ وہ جس کی خاطر تم اس قدر پریشان اور دکھی دل رہتے ہو میری بیوی کو دیکھتے ہی میڈم کی انکھیں حیرت سے  صرف ہل چکی تھی وہ مسکرا کر کہنے لگے یہ ماشاءاللہ تمہارے بیوی تو بالکل ایک بڑی جیسی حسین و جمیل ہے وہ بہت پیاری ہے تم تو خوش قسمت ہو جو تمہیں اتنی پیاری بیوی ملی ہے اس لیے میری میڈم نے میری بیوی کو دیکھ رکھا تھا میڈم خود تو 30 35 سال کے طریقے کی خاتون تھی مگر ان کا شوہر 80 سالہ بوڑھا عربی تھا۔ مجھے یہ بات اک میڈم کے شوہر کو دیکھا تو پریشان سی ہو گئی میرے پاس ا کر کہنے لگی کہ محمد عتیق یہ میڈم نے اس بوڑھے کھوسٹ اخر کیا دیکھا تھا جو اس سے شادی کر لی یہ تو کہیں سے بھی میڈم کا میل نہیں کھاتا میڈم تو اج بھی جہاں جہاں دکھتی ہے جبکہ وہ تو 80 سالہ بڈھا ضعیف میڈم کو اس سے کیسے محبت ہو گئی تھی میں بھی تو کب سے کسی سوچ میں گم سم تھا جب سے یہاں پر ایا تھا میڈم کے شوہر بستر پر لیٹے رہتے تھے ان کو فالج کا اٹیک ہوا تھا اور وہ کوما کی کیفیت میں چلے گئے تھے۔ اس لیے وہ چل پھر نہیں سکتے تھے میڈم نے انہی کی دیکھ بھال کے لیے میری بیوی کو یہاں بلایا تھا یہ بات میری سمجھ سے بھی باہر تھی کہ اخر میڈم نے اس بوڑھے سے محبت کر کیسے کیونکہ میڈم اکثر کہا کرتی تھی کہ ان کے شیخ صاحب سے پسند کی شادی ہے خیر کچھ روز ارام سے گزرے تو میڈم ایک روز میرے پاس ہے اور فریدہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے میڈم کے بعد میں خوبصورت نادر سے لطف اندوز ہو رہے تھے جب میڈم ہمارے پیچھے ا کر کھڑی ہو گئی میڈم کی موجودگی پا کر ہم دونوں ہڑبڑا کر سیدے ہوئے ہمیں تو یہ احساس ہی نہیں ہوا تھا۔ یہ میڈم ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئی ہے۔

میڈم ہمارے پاس ائی اور ا کر کہنے لگے محمد عدیق میرے کمرے میں اؤ مجھے تم سے کچھ ضروری بات چیت کرنی ہے میری بیوی میرا چہرہ دیکھنے لگی اور منہ بسور کر میری جانب دیکھنے لگی وہ جب سے یہاں ائی تھی ہم نے کچھ پل کے لیے بھی ایک دوسرے کے ساتھ وقت نہیں گزارا تھا رات ہوتی تو اس قدر تھک جاتے تھے کہ جلد ہی سو جایا کرتے تھے اور اج جب تھوڑا بہت وقت ملا تھا وہ میڈم نے مجھے بلا لیا تھا میں نے سیدھا کو اشارہ کرتا ہوا میڈم کے قانون کی طرف جانے لگا تو وہ بھئی میرے ساتھ یہ چلنے لگی مگر تبھی میڈم نے اسے تنبیہ کیا تو صرف محمد عتیق کو اپنے کمرے میں کہا ہے اس کا یہی مطلب تھا کہ اس کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ میں چلتا چلتا میڈم کے کمرے میں اگیا میڈم نے مجھے اپنے پاس بلا کر کہا محمد عدیق مجھے کام کے سلسلے میں ریاض جانا ہے تو میں چاہتی ہوں کہ تم میرے ساتھ چلو ریاض شہر یہاں سے تین چار گھنٹے کی مسافت پر تھا مگر اب تو رات ہو چکی تھی۔

میں نے میڈم جو سوال کرنا چاہا مگر پھر خاموش ہو گیا چپ ہو گیا بھلے میں نوکر تھا نوکر کی کیا مجال جو میڈم سے سوال کرتا ہوں میں نے میڈم کے حکم کی تعمیر کی اور گاڑی نکالنے لگا میڈم سے جب میں نے پوچھا کہ میڈم ہم کتنی دیر ریاض میں رہیں گے تو میڈم ٹھنڈ لگی ابھی کوئی علم نہیں شاید چند ہفتے یا مہینے بھی لگ سکتے ہیں۔ میرے تو ہوش ہو رہے تھے جبکہ فریدہ بھی میرے قریب ہی کھڑی ہوئی تھی جب اس نے یہ سنا تو گھبرا سی گئی پریشان ہو گئی فورا میرے پاس ا کر کہنے لگی کہ محمد عتیق تمہارے بغیر میں یہاں پر اکیلی کیسے رہوں گی یہاں تو میں کسی کو جانتی بھی نہیں اور یہاں پر تو ہیں بھی سارے عربی لوگ وہی میری طرح بولتا بھی نہیں تو تمہارے بغیر میں رہ ہی نہیں سکتی۔ مگر تبھی میڈم صاحبہ اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہنے لگی تو فریدہ تو میں یہاں پر وقت گزاری کے لیے نہیں بلکہ میرے شوہر کی دیکھ بھال کے لیے بلوایا گیا ہے تم ان کا خیال رکھو تمہارا وقت خود بخود ہی گزر جائے گا فریدا اسی پل بے بسی کا شکار خاموش ہو چکی تھی مگر میں جانتا تھا وہ اندر ہی اندر کڑ کر زار و قطار رو رہی تھی۔

میں نے سوچا میڈیم سے اسکی سفارش کروں مگر میڈم نے تو لاکھ روپے دینے کا وعدہ کر رکھا تھا میں نے فریدہ کو وہیں چھوڑا اور میڈم کے ساتھ ریاض ا گیا  میڈم مجھے وہاں لے جا کر اپنے کاموں میں مصروف کا چکی تھی۔ دو تین دن تک تو میرا فریدہ سے کوئی رابطہ ہی نہ ہوا ایک روز فریدہ کا فون ایا تو وہ بہت زیادہ زار و قطار رو رہی تھی میں نے اسے سمجھایا تسلی دی کہ مت رو میڈم کا بہت بڑا گھر ہے کہیں بھی گومو پھرو اور میڈم کے شوہر کی دیکھ بھال پر بہت جلد میں واپس ا جاؤں گا مگر فریدہ روتی رہی اور پھر بولی میں نے سوچا تھا ہم عمرہ کرنے کے لیے جائیں گے اور اپنی زندگی خوش و خرم گزاریں گے مگر تم نے  تو یہاں میری زندگی عذاب کر دی ہے میں حیران و پریشان تھا اور اسے کہنے لگا کہ تم کیا بات کر رہی ہو بھلا تمہاری زندگی محل جیسے گھر میں بھی رہ کر کیسے عذاب ہو سکتی ہے۔ مگر تبھی فریدہ کی کال کاٹ گئی میں نے بہت بار دوبارہ فون کرنا چاہا مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا مجھے اب فریدہ کی فکر ستانے لگی تھی میں نے یوں ہی پریشان کھڑا تھا فون اٹھائے دیکھا تو غصے سے کہنے لگی محمد عتیق میں تمہیں اپنے ہاں کام کے لائی ہوں، باتیں کرنے کے لیے نہیں بہتر ہے کہ اپنا فون میرے حوالے کر دو۔

  میڈم کی یہ بات سنی تو میری ہوائیاں اڑ گئی۔ میں میڈم اسے کہنے لگا کہ مجھے فریدہ کا بھی پریشان لگ رہی تھی اگر اپ کی اجازت ہو تو ایک دفعہ میں واپس چکر لگاؤں مگر میڈم صاحبہ نے منع کر دیا اور کہنے لگی کہ سوچ لو اگر تم مجھے یہاں پر چھوڑ کر واپس گئے تو میں تمہاری تنخواہ کاٹوں گی میں تو تھا ہی لالچی سا انسان، اگر تنخواہ کٹ گئی تو بھلا میں پاکستان اماں کو کیسے پیسے بھیجوں گا؟ مجبورا مجھے موبائل  میڈم صاحبہ کے حوالے کرنا پڑ گیا اور خود ان کے کاموں میں مصروف ہو گیا تھا اس کے بعد بھی کئی دفعہ فریدہ کا فون ایا مگر میڈم نے مجھے میرا موبائل فون نہ دیا تھا۔ میں پریشان سا ہو کر رہ گیا تھا ایک روز جب بیوی کی بے حد فکر شتانے لگی تو مالکن سے چھپ کر اپنا موبائل لینا چاہا وہ اس وقت گھر میں موجود نہیں تھی اور میرا موبائل یقینا ان کے کمرے میں تھا۔ میں فریدہ سے بات چیت کرنا چاہتا تھا۔ میں نے ان کے کمرے کا دروازہ اندھیرے سے کھولا اور پھر ان کے کمرے کی تلاشی لینے لگا  بلا شبہ ان کے کمرے میں قیمتی زیورات جو ہی کھلے پڑے تھے۔ مگر مجھے ان صاحب کی کوئی پروانہ تھے مجھے تو بس اپنا موبائل فون چاہیے تھا تبھی مجھے موبائل ان کے بیڈ کے سائیڈ ایبل پہ پڑا ہوا ملا۔

میں نے فورا موبائل اٹھایا جب دیکھا تو اس کی بیٹری لو ہونے کی وجہ سے وہ اف ہو چکا تھا میں نے وہاں پر موجود چارجر سے  سے اپنا موبائل چارج کر لیا تھا جب تک موبائل چارٹ ہوتا مالکان واپس ا چکی تھی وہ اج اپنے ساتھ ڈرائیو کرنے نہیں لے کر گئی تھی میں نے جب انہیں اتا دیکھا تو موبائل فورا اتار کر اپنی جیب میں چھپا لیا تھا اس کی چارجنگ کتنی ہو چکی تھی کہ میں اپنی بیوی سے بھاگ کر سکوں تھوڑی دیر بعد جب مالکن تھانہ کھا کر سو گئی۔ ایک طرف چھپ کر اس سے 40 مسکال ائی ہوئی تھی اور مجھے اس کی فکر ستانے لگی میں نے فورا سے کال ملائی مگر اس کا نمبر بند جا رہا تھا اتنی دیر تک کال ملانے کے بعد اس نے کال اٹھائیں وہ بے تحاشہ رو رہی تھی اس کی ہچکیاں بہن چکی تھیں میں فریدہ سے بکھلا کر کہنے لگا ریتا کیا ہوا تمہیں تم اس قدر کیوں زار و قطار رو رہی ہو کسی نے تمہیں کچھ کہا ہے فریدہ رونے لگی اور رو رو کر کہنے لگے کہ تم نے ہمیں زندگی عذاب بنا کر رکھ دی ہے میرا سب سے بڑا غلط فیصلہ یہی تھا۔

میں تم پر اعتبار کر کے پردیس چلی گئی وہ تو تم اس میڈم کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہے ہو اور میں یہاں ان عربیوں کی۔۔۔۔ وہ یہہ کہہ کر رونے لگی مجھے فریدا کی بات پر غصہ بھی ایا تھا مگر ضبط کر گیا اور پوچھنے لگا کہ اجر ہوا کیا ہے وہ رو کر کہنے لگی مجھے یہاں سے لے جاؤ ورنہ میں اپنی جان دے دوں میں مزید یہاں پر یہ سب کچھ برداشت نہیں کر سکتی  ابھی بھی مشکل سے تم سے بات کر رہی ہوں تمہاری میڈم نے تو میرے ساتھ۔۔۔۔فریدہ صرف اتنا ہی بول رہی تھی کہ تبھی مجھے میڈم کے اٹھنے کی اواز ائی وہ  اپنے کمے سے باہر نکلے گی میں نے فورا کال کاٹ دی اور موبائل کو وہیں پر موجود گملے میں چھپا دیا تھا میرا دل بوری طرح کام رہا تھا۔ اگر میڈم کو یہ پتہ چل جاتا کہ میں ان کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں گیا اور اپنا موبائل بھی لیکن ایا تو وہ میری جان لے لے تی مگر شکر ہے تو میڈم کو کچھ پتہ نہ چلا جیسے ہی رات ہوئی تو میں نے سوچا کہ میں راتوں رات بیوی سے مل کر یہاں واپس ا جاؤں گا کیونکہ مجھے اب فریدا کی  بے حد فکر ستانے لگی تھی میں جانے وہ کس حال میں تھی یقینا کسی ملازم میں اسے ڈانٹ دیا ہوگا  یا کسی سے کوئی لڑائی وغیرہ ہو گئی ہوگی تبھی وہ اس قدر پریشان ہو کر رو رہی تھی۔ مگر حقیقت کیا تھی یہ تو وہاں جا کر کھلنی تھی راتو رات میڈم سے چھپ کر میں واپس ان کے نشان محل میں پہنچ چکا تھا جہاں پر فریدا موجود تھی۔

میں نے جب گھر میں قدم رکھا تو یہ دیکھ کر میری جان نکل گئی فریدا تو وہاں کہیں پر بھی موجود نہ تھی میں نے ملازم سے پوچھا  پوچھا کہ اخر میری بیوی کہاں ہے وہ حیرت سے میری جانب دیکھنے لگا ان کی نظروں میں سختی تھی اور پھر کہنے لگے تمہاری بیوی اس وقت میڈم کے شوہر کے کمرے میں ہے نہ سننا تھا مجھے ان کے منہ سے یہ کافی عجیب و غریب لگا میری بیوی تو اس لیے رکھی گئی تھی مگر ان نوکروں کا انداز انتہائی عجیب و غریب تھا میں نے اس کمرے کی جانب نکل گئی میڈم کا شوہر 80 سالہ عربی بیڈ پر نیند دراز بیٹھا تھا اور میری بیوی اس کے پیروں کی مساج کر رہی تھی میری بیوی بے تحاشہ زار و قطار رو رہی تھی۔ اس کو روتا دیکھ کر میں اس کی جانب بڑھا بوڑھا عربی مجھے اپنے پاس دیکھ کر چوک چکا تھا مجھے دیکھ کر فریدہ روتے ہوئے میرے سینے سے لگ گئی میں اسے یوں بکھلایا ہوا دیکھ کر سوال پر سوال کرنے لگا اور اس عربی کو خون خواہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ وہ بوڑھا تو کومے میں تھا پھر وہ ٹھیک کیسے ہو گیا۔

فریدہ ہچکیاں باندھے جو مجھے کچھ بتانے لگی وہ سن کر میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی ہمیں یہاں سے بھیج کر میڈم نے کچھ امیر شیخوں کو یہاں پر بلا لیا تھا، تو بظاہر میڈم کے شوہر کے ذمہ داری کرنے کے لیے ائے تھے مگر درحقیقت وہ میری بیوی کو دیکھتے تھے میڈم جیسے ہی بحروفیا ارک نے میری بیوی کا سودا کر رکھا تھا وہ تین چار شیخ روز ایا کرتے اور میری بیوی ان کو لوازمات پیش کرتی پہلے تو فریدہ نے دھیان نہ دیا مگر ایک روز ان عربی شیخوں نے میرے بیوی کو اپنے کمرے میں بلا کر ان کو ہوس بھائی نظروں سے دیکھتے ہوئے چھونا چاہا اتنا محسوس کرنا تھا کہ میری بیوی ڈر کر وہاں سے بھاگی اس کواٹر کا دروازہ بند کر دیا اور روتے ہوئے مجھے کال کرنے لگے۔ تبھی وہ شیخ اس جانب ڈھونڈتے ہوئے ائے تو بیوی کال کاٹ کر چھپ گئی تھی وہ شیخ تو نوکروں کا لحاظ کر کے چلے گئے مگر اگلے کچھ روز نے فریدہ کواٹر سے باہرہ نکلی اور نہ ہی بوڑھے علمی کو دبا دی میڈم نے بوڑھے عربی کے لیے وہ دوائیاں رکھی تھیں جس سے وہ کوما میں رہے۔ مگر جب ان دوائیوں کا اثر ختم ہوا تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئے اس رات فریدہ پر 80 سالہ عربی کا سارا سچ کھل چکا تھا تبھی وہ دوبارہ میری بیوی کو وہاں سے لینے ائے کیونکہ مالکن جیسی دوغلی عورت نے میری بیوی کو کئی ہزار لاکھ ریال کے عوض بیچ دیا تھا مگر شیخ صاحب کو اٹھا دیکھ کر صاحب کے چہرے کے رنگ اڑ گئے اور انہوں نے فورا اس شیخ صاحب پر پرچہ کروا کر جیل میں ڈلوا دیا۔

یہ سب میرے انے سے کچھ دیر پہلے ہوا تھا یہ ساری جائیداد اور شان و شوکت بھی اسی شیخ صاحب کا تھا میڈم قدم تو کوئی کام ہی ریاض میں لگتی محفلوں میں لڑکیوں کا ناچ گانک کرنا تھا میں نے شیخ صاحب کا شکریہ ادا کیا اور راتوں رات پاکستان واپس اگیا یوں ہم میاں بیوی ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے۔ سچ کہتے ہیں نا لالچ بری بلا ہوتی ہے۔ جیسے ہم دونوں اگئے تھے خیر بلا ہو ان کا جنہوں نے راتوں رات پاکستان بھیج دیا تھا اور ہمارا باہر سے چکر ختم ہو گیا تھا۔ دنیا بڑی تیز ہے ہم سادہ مزاج لوگوں کو دینے نہیں دیتی اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ سب بہن بیٹیوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ امین ثم امین۔