چڑی کی دکی عصمت چغتائی کا افسانہ Chirri Ki Dukki Afsana by Ismat Chughtai

 نام تو ان کا عبداحئی تھا پر دل والیاں انہیں پیار سے دلدار کہا کرتی تھیں۔ وہ تھے بھی سر سے پاؤں تک ایک حسین اور دلچسپ دلدار۔ حئی سونے کی طرح دمکتا رنگ سورج کی کرنوں کو شرما دینے والے خم دار بال گہری سبز آنکھیں۔ ایسی کہ ایک بار کوئی جی بھر کے ان میں جھانک لے تو جنم جنم گھنیرے جنگلوں میں بھٹکتا پھرے۔ میٹھی میٹھی مسکراہٹ ایک قہر کہ شہید ہونے کو جی چاہے۔ انہیں دیکھ کر خدا کی قدرت یاد آجاتی تھی معلوم ہوتا تھا بڑی فرصت سے مزے لے لے کر انہیں گڑھا ہے۔۔ کم سنی ہی سے انہیں دل دکھانے کا چسکہ پڑ چکا تھا۔ گرد و نواح کی تقریباً سب لڑکیاں وقتا فوقتا دل ہار چکی تھیں۔ جس محفل میں چلے جاتے دل والیوں کے کشتوں کے پشتے لگ جاتے۔ شوہر اپنی بیویاں سمیٹ کر چوکنے ہو جاتے۔ کنواریوں کی مائیں فوراً ان کی بہنوں اور ماں پر واری صدقے ہونے لگتیں۔ کالج میں ہی تھے کہ پیغام جھڑنے لگے۔ نوکری ہو ئی تو لوگوں نے یلغار بول دی۔

بہنوں کی سہیلیوں کی تعداد اس تیزی سے بڑھی کہ شمار کرنا مشکل ہو گیا۔ دے دعوتوں پر دعوتیں ہونے لگیں۔ ایک سے ایک سکھی سلونی حسینہ مع گاڑیوں جہیز کے انہیں جیتنے پر تل پڑی۔

اگر بزاز پچاس ساٹھ تھان کھول کر سامنے پھیلا دے تو عقل اوندھ جاتی ہے۔ انتخاب مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی حال بچارے دلدار کا ہوا۔ کبھی ایک پسند آئی کبھی دوسری کبھی ایک ساتھ کئی کئی پسند آجاتیں اور پھر سب جی سے اتر جاتیں۔ کوئی ان کے مقابلے کی تھی بھی کہاں؟ وہ تھے بھی حکم کا اکا۔ ان کے سامنے کوئی پان کا اٹھا تھا تو کوئی نہلا، دہلا۔ ویسے دل والیاں تو چوٹے پنجے سے زیادہ نہیں  تھیں۔ جانتی تھیں، وہ ان کی دسترس سے باہر ہیں۔ مگر دل سے مجبور تھیں، انہیں دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرنے اور آنسوؤں سے تکیے بھگونے سے انہیں کوئی روک سکتا تھا۔

چڑی کی دکی عصمت چغتائی کا افسانہ - Chidi Ki Dukki Afsana by Ismat Chughtai

اور بے چاری عالیہ نری پان کی دکی تھی۔ فرق اتنا تھا کہ اس کے سینے میں شاید دل نہیں تھا، کیونکہ اگر دل ہوتا تو وہ ضرور دلدار کے دودھ جیسے سفید پیروں تلے لوٹتا ہوتا۔ بد صورت انسان سے انہیں چڑ تھی۔ خاص طور سے عورت کو تو بد صورت ہونے کا حق ہی ان کے نزدیک نہ تھا؟ وہ کہتے تھے کہ اگر عورت حسین نہیں تو ہے ہی کیوں؟ اسی لئے عالیہ کو دیکھ کر ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ جی بھر کے کالی اوپر سے سینک سلائی کہ سوئی کے ناکے میں سے گھیٹ لو۔۔۔ مجسم معشوق کی کمر تھیں۔ لوگ ان کے والدین پر ترس کھایا کرتے تھے کہ نہ جانے کس جنم کی سزا بھگت رہے ہیں۔ یہاں اچھی بھلی حسین جہیز والیاں اٹھائے نہیں اٹھتیں۔ یہ اللہ کی رحمت اسے کون اللہ والا سمیٹے گا؟۔۔۔۔

سینک سلائی دھری تھیں، مگر صحت بنانے کا بڑا شوق تھا۔ روزانہ شام کو ریکٹ ہلاتی آدھمکتیں۔ برسوں سے بیڈ منٹن کھیلنے پر تلی ہوئی تھیں مگر مجال ہے جو ایک ہاتھ بھی مار جائیں، سارے کورٹ پر کوڑے کی طرح اول جلول پھر کا کرتیں۔ اس اناڑی پن پر جل کر دلدار فورا ریکٹ پھینک کر دھم سے سیڑھیوں پر بیٹھ جاتے۔

ارے عبد الحئی صاحب اتنے جلدی تھک گئے ! وہ اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں پیٹا تیں۔ لفظ عبدل   سے دلدار کو چڑ تھی، جیسے اوپر   اوپر کے کام کا چھو کرا۔ ورزش کیجئے عبد الحئی صاحب ورنہ موٹے تھل تھل ہو جائیں گے۔۔۔

شکریہ آپ کی رائے کا عالیہ خاتون صاحب

پھر۔۔۔۔۔

ہاں پھر۔۔۔۔؟

کچھ نہیں  عالیہ ٹال گئی۔

نہیں صاحب تکلف نہ کیجئے۔۔۔۔ کہیے نا؟

بے چاری دل والیوں کے خواب چکنا چور ہو جائیں گے۔ عالیہ بدصورت ہی نہیں بد ذوق بھی تھیں۔ اس رات کسی کے حسین تصور میں غرق ہونے کی بجائے عبد الحئی غصہ سے پھنھناتے رہے، کالی مالی۔ نہ جانے اپنے آپ کو کیا سمجھتی ہے! کم بخت مری ہوئی چھپکلی! خدا قسم ابکائی آتی ہے۔

جب عالیہ کو معلوم ہوا کہ حئی اسے چڑی کی دکی کہتے ہیں تو وہ گلہری کی طرح مین مین آواز میں خوب ہنسی کہنے لگی ، چلو زندگی میں ایک بات تو عقل کی کی۔  دل والیاں دلدار کے بارے میں ایسی گستاخی کی باتیں سن کر لرز اٹھیں۔ تمہارے سینے میں تو دل نہیں ، جوتے کا تلا ہے۔ وہ جل کر کہتیں۔

تلا بڑے کام کی چیز ہوتی ہے پاؤں میں کنکر نہیں چبھتے۔ عالیہ فلسفہ جھاڑتی ۔

کیا ارادہ ہے؟ کیا عمر بھر شادی نہیں کرو گی ؟

کروں گی کیوں نہیں ؟

اور محبت؟

محبت بغیر شادی کب ہوتی ہے۔ وہ تو طلاق ہوتی ہے۔ کوئی بھلا آدمی ملا تو نہایت شان دار عشق کیا جائے گا۔ پھر۔۔۔

دلدار کے بارے میں کیا خیال ہے؟

ذکر بھلے آدمی کا تھا۔

تو کیا وہ بھلے آدمی نہیں؟

توبہ کرو۔ بھلے آدمی تو کیا ان کو تو آدمی کہنا ہی دغا بازی ہے۔  تمہارا مطلب ہے....؟

عبد االحئی آدمی نہیں، معشوق ہیں ! بھئی مجھ سے تو معشوق نہ جھیلے جائیں۔ ارے کہاں میں نخرے اٹھاتی پھروں گی۔

تو تم سمجھتی ہو کوئی تمہارے نخرے اٹھائے گا؟

ضرور اٹھائے گا؟

کون؟

جسے غرض ہو گی وہ نخرے اٹھائے گا ہی

کبھی آئینے میں منہ دیکھا ہے؟

روز دیکھتی ہوں۔ اور آئینے سے پوچھتی ہوں، آئینے رے آئینے؟ ہے کوئی دنیا میں مجھ سے زیادہ حسین، آئینہ کہتا ہے ابھی تو بہ کیجئے۔  عالیہ اپنی بدصورتی کا خوب مذاق اڑاتی۔

ایک نسخہ تھا تیر بہدف ہزار بار کا آزمایا ہوا۔ جس کے استعمال سے عبد الحئی ہمیشہ سرخ رو ہوئے تھے۔ اور وہ تھا عشق کے میدان میں دشمن کو للکارتا اسے اپنے عشق میں گرفتار کر کے سکا سکا کر اس کا حلیہ بگاڑ دینا۔ سخت گرم بازی کی ضرورت ہوتی ہے اس فن میں یوں دھڑے لڑکیاں ؟ ہوں دھڑے نوکیاں پل کر کے عاشق ہونے کی عادی نہیں، پہلے ان پر عاشق ہونے کا مکمل نانک کا کھیلنا پڑتا ہے۔ رفتہ رفتہ ان کا کھیل ٹانک ہی بن گیا۔ پہلی لڑکی سے انہیں خود بخود عشق ہو گیا تھا سولہ برس کے تھے وہ بھی اتنی ہی ہو گی۔ مگر انہیں شادی کے بازار میں ابھی آنے میں دیر تھی چنانچه دو سال بعد لڑکی کی شادی ہو گئی۔ اور جب یہ پر سر روزگار ہوئے تو وہ چار بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ اس عرصے میں انہوں نے کئی عشق کئے۔ عشق کی مشق سے ان میں بڑی پختگی آئی۔ ایسے ایسے گر انہوں نے سیکھے کہ خود کورے نکل آئیں اور مقابل چت ہو جائے۔ ہاتھ اتنا صاف ہو گیا کہ پلک جھپکتے فتوحات حاصل ہونے لگیں۔ نظر بھر کے دیکھا دو چار چیٹتے ہوئے جملے تلی ہوئی آواز میں سرکائے گنبھیر ہری ہری آنکھوں سے پھندا پھینکا اور مال عظیمت سمیٹ کر چل نکلے۔ نگر بد صورت لڑکیوں سے اظہار عشق کوئی کیسے کرے؟ بدصورت لوگ اپنے گرد چٹانیں کھڑی کر لیتے ہیں۔ ملا مضبوط ہو تو کانٹا ٹوٹ جاتا ہے۔ کم سن بھولی بھالی حسینہ کو بہلاتا تو انہیں آیا تھا۔ اور کے نہیں آتا؟ مگر عالیہ کی تو وہی مثل تھی۔ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی راہ بنانے کے لئے کوئی تو روزن چاہئے۔ کھڑنجے سے سر پھوڑنا کہاں کی دانش مندی ہوگی؟ ایسی بے بسی ان پر بھی نہ چھائی تھی۔ ساری دل والیاں بھی مل کر اس ایک زخم کا مرہم نہ بن سکیں جو عالیہ کی اس قلعہ بندی سے رہنے لگا تھا۔ انہوں نے

بہت جال پھینکے، لیکن جلی کئی بحثوں کے سوا اور کچھ ہاتھ نہ آیا۔ سوچا ظاہری حسن کے ذکر سے کترا کر کچھ روحانی حسن کا ذکر چھیڑا جائے۔ مگر عالیہ فزکس میں ریسرچ کر رہی تھی۔ : بھوت پریت . ے اے دلچسپی نہ تھی۔ ویسے وہ کچھ زیادہ باشعور اور خوش خو بھی نہ تھی۔ نہایت ٹری کج بحث آواز میٹھی تھی مگر باتیں کڑوی کیل۔ مٹی چڑ گئے۔ کھسیانی بلی بن گئے۔ اب وہ مذاق میں قصے لگا کر اپنی امی سے کہتے بھی اس حسینہ  مہ جبیناں کو ہمارا پیغام بھیج دو کہ ہم اس پر ایک چھوڑ ہزار جان سے عاشق ہو چکے ہیں۔ اے پری رو رحم فرما! واللہ امی لڑکی ذات یہ حرکتیں کرتی تو اماں کی ناک چوٹی کٹ جاتی۔ لیکن بیٹے کی ہر دلعزیزی پر وہ بھی پھولی نہ سمائی تھیں۔ جب کسی لڑکی سے پینگ بڑھاتے تو وہ بھی ہونے والی بہو پر عاشق ہو جاتیں۔ اس کے وہ چاؤ چونچلے کرتیں کہ توبہ ۔ پھر جب مٹی اکتا جاتے اور ان کا رویہ بدل جاتا تو ماں کا عشق بھی یک لخت رفو چکر ہو جاتا، بہنیں بھی رکھائی برتنے لگتیں۔ سچ ہے، وہی سہاگن ہے جس کو پیا چاہے۔ ایک دم اس کے خاندان سے کسی بات پر لڑ بیٹھتیں اور بیٹے کی نیچے رکھنے کو کہہ دیتیں ، اے بھٹی اس لڑکی کے طور طریق ٹھیک نہیں چڑھ چڑھ کے ناحق آتی ہے ۔  اس کے بعد جھٹ اس لڑکی کی شادی ہو جاتی یا کہیں دل کی مرمت کرانے روانہ کر دی جاتی۔ اور نئی امیدوار کے سامنے ہاں بہنیں مل کر خوب اس کا مذاق اڑائیں۔ ے مئی ذرا سیدھے منہ بات کر لیتا تھا تو اتار رہی ہو گئیں مجھے تو پھوٹی آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ پھر سب مل کر کوئی نئی لڑکی پسند کرتیں۔ اس کا آنا جانا بڑھا میں پھر سہرے کے پھولوں اور چڑھاوے کے سہانے ذکر چھیڑتے۔ مگر عالیہ کے لئے مذاق میں بھی پیغام بھیجنے کا ذکر سن کر چاہت کی ماری امی سہم گئیں۔ نا بیٹا یہ مذاق پرائی لڑکی کا اڑانا اچھا نہیں، جو اللہ نہ کرے ان کے باوا نے قبول کر لیا اور تو کیا ہوا ؟ بس چاند سی بہو لائیے گا۔

مجھے ایسی باتیں ذرا نہیں بھاتیں۔ ان کے باوا ویسے ہی خبر دماغ ہیں۔ تو کیا ہم ان کی صاحبزادی کو گالی دے رہے ہیں۔ پیغام ہی تو بھیج رہے ہیں۔

چل ہٹ دیوانے۔ وہ تو سر آنکھوں پر اٹھا ئیں گے پیغام۔ شرارت حد سے گزر جائے تو مکینہ پن بن جاتی ہے۔ یہ مذاق کچھ اتنا بڑھا کہ بات عالیہ کے کانوں تک پہنچی۔ سب نے سوچا کہ سن کر روہی تو پڑے گی۔ مگر توبہ کیجئے جناب! عالیہ نے سنا تو کان پر ہاتھ رکھ کر بولی نا بابیا۔ میں کہاں حلیبیوں کی تھال پر سے ساری عمر لکھیاں اڑاتی پھروں گی۔ بدائی صاحب ٹھرے معشوق ان میں کسی کا شوہر یا بچوں کا باپ بنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ مجھ جیسی بد صورت عورت کی بھی یہ سزا نہیں ہونا چاہئے۔ ایسا چھبیلا دولھا مجھے کیسے ہضم ہو گا؟

انگور کھٹے والی بات ہے۔ ایسا حسین دولھا مل جائے تو ... دل والیاں کلس گئیں۔

ہاں بھئی میں کیا کروں گی حسین دولھا کا؟ کوئی مجھے کرائے پر چلانا ہے؟ حئی نے سنا تو انار کی طرح چھوٹ نکلے بہت سور ہے کم بخت! صورت سے بڑھ کر دل کالا ہے۔ ادھر عالیہ اپنے تھیسس پر لگی ہوئی تھی۔ بیڈ منٹن کبھی کا ختم ہو گیا تھا۔ اس کا ذکر بھی پھیکا پڑ چکا تھا۔ فضا کند تھی۔ مئی نے بوکھلا کر دو تین اور ہاتھ مارے۔ ایک بت کافر پاکستان سے بھی آئی۔ مگر معلوم ہوا کہ مال ایکسپورٹ کے لئے نہیں، ہاں دولہا کو امپورٹ کیا جا سکتا ہے مع امریکن فرم میں نو نوکری عالیہ نے سنا تو بلک اٹھی۔ اے ہے انہیں ایکسپورٹ کر کے چلغوزے منگوا لئے جائیں۔ اللہ کتنا فائدہ رہے گا قوم کا بھی فائدہ اور ملک بھی سر خرد دل والیاں لڑ پڑیں۔ انگور کھٹے اس لئے تھو تھو، جو مل جائیں تو ہپ ہپ۔ مگر عالیہ اپنی بات پر اڑی رہی۔ عبد الحئی خاں کا وجود قوم اور ملک کے لئے فخر کی بات نہیں۔ ویسے عورت ذات کے لئے تو وہ زہریلا پل ہیں۔ وہ دلوں سے کھیلتے ہیں اور رہیں گے۔ نہ کھیلتے رہیں۔ گے۔ بوڑھے کھوسٹ ہو جائیں گے۔ گے پر یونی میدان مارتے جانے کتنے گھر بگاڑیں ۔ کے کتنوں کی بیویاں بھگائیں گے۔ اور کتنوں کا دل خاک میں ملائیں گے۔ حئی نے سنا تو خوب ہنسے۔

در اصل عالیہ مجھ پر بری طرح عاشق ہے۔ ایس لئے مجھ بد نام کر رہی ہے کہ سب مجھ سے خوفزدہ ہو جائیں تو ۔۔ اماں بہنیں تو عالیہ کو کوسنے لگیں۔ جل لکڑی مردار اور نئی امیدوار کے خواب دیکھنے لگیں۔ اے ہے لوگو غضب ہے کہ نہیں۔ شہزادوں کو شرما دینے والی صورت شکل کماؤ پوت اور کنوارا بیٹھا ہے۔ کبھی دیکھا نہ سنا۔ عبید صاحب، فزکس کے پروفیسر عالیہ کو حیس لکھنے میں مدد دیتے تھے۔ چالیس پینتالیس برس . کے ہوں گے بیوی کچھ سال ہوئے دو بچے چھوڑ کر مر چکی تھیں۔ ان کی طرف سے ، عالیہ کے لئے پیغا پیغام آیا جو منہ منظور کر لیا گیا۔ عالیہ کی بھی مرضی تھی۔ حئی نے تو قہقہوں سے گھر سر پر اٹھا لیا۔

رام ملائے جوڑی ایک اندھا ایک کوڑھی۔ چلو دو گھر نہیں بگڑے ۔  جب شادی کی مبارکباد دینے گئے تو یوں ہی کہہ دیا مگر آپ نے بھی کس بور سے شادی کا فیصلہ کیا ہے۔۔۔۔

خیر زیادہ بور تو نہیں۔۔۔۔ بہت زیادہ بور ہیں۔ دوسرے ان کی شکل نہایت خطرناک ہے۔ گنجے الگ ہیں۔

مجھ سے بھی زیادہ خوف ناک شکل ہے؟ قطعی ان کے سامنے تو آپ حسین ہیں۔

سچ؟ بس تو پھر اس سے بہتر جوڑ کہاں ملے گا۔ دلہن ۔ زیادہ حسین ہونا چاہئے۔  عالیہ چہکی۔

بڈھے الگ ہیں۔

دامن کو دولہا سے کم سن ہونا چاہئے۔ آپ کو ان سے محبت ہے؟

آپ کون ہوتے ہیں یہ پوچھنے والے؟

آپ تو جانتی ہیں محبت میری بابی ہے۔

وہ تھیسس تیار کر رہے ہیں ؟ عالیہ ہنس پڑی۔

ہو سکتا ہے؟

میرا تھیسس ٹائپ ہو کر آجائے تب

فرصت سے عشق کا پروگرام بنے گا۔  حئی نے لقمہ دیا۔۔۔۔

ایں؟ خیال برا نہیں۔ با قاعدہ پروگرام بنا کر۔حئی بھنا اٹھے ، معاف کیجئے گا یہ نہایت چغد پن کی بات ہے۔ ایسے محبت کی جاتی ہے؟۔ گویا یہ بھی میں ہو گئی۔ کیوں؟ وہ آپ ایکسپرٹ ہیں نا۔ ٹھیک بالکل ٹھیک تو آپ کی قیمتی رائے سے اگر مستفید ہو سکوں تو ویسے کچھ آپ سے سیکھا تو ہے۔ اندازا

کچھ مشکل کام نہیں۔ آپ تو مشاق ہیں کھٹا کھٹ پانچ منٹ میں میدان صاف۔

عالیہ نے چٹکی بجا کر کہا۔ آپ قطعی اناڑی ہیں۔

اوتھ کوئی مضائقہ نہیں۔ عبید صاحب کچھ عشق وشق کے ساتھ دلچسپی نہیں رکھتے۔ نہایت پریکٹیکل قسم کے آدمی ہیں۔ آپ ان کے ساتھ خوش رہ سکیں گی ؟

خوش رہنا اتنا مشکل کام نہیں۔ اپنا نجی فعل ہے جہاں تک میرا تعلق ہے ہے غربی بد صورتی بری صحت کوئی بلا بھی مجھے آج تک پست نہ کر سکی۔ مجھے یقین ہے میں بہت خوش رہوں گی۔

یہ شادی نہیں ہوگی!

کیوں؟

کیوں کہ آپ عشق کی ہتک کر رہی ہیں۔

عالیہ اور عبید صاحب کی شادی نہیں ہو سکی۔ مئی نے عبید صاحب سے جا کر صاف صاف کہہ دیا کہ عالیہ ان سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔

کیوں؟ عبید صاحب ؟ بھونچکے رہ گئے۔

کیوں کہ وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے۔

ہیں؟ کس سے؟

مجھ سے ! مٹی نے مسکین صورت بنا کر آنکھیں جھکا لیں۔

مگر مگر آپ !

جی حئی نے گردن جھکائی۔

حئی کے جانے کے بعد عبید صاحب کو یقین ہو گیا کہ عاشق واقعی اندھا ہوتا ہے۔ گھر میں صف ماتم بچھ گئی ۔ مذاق کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اس غریب کی زندگی برباد کر کے تجھے کیا ملا؟ اماں نے آنسو بھر کے کہا اس بدنامی کے بعد اب نگوڑی کو کون قبولے گا؟

میں ہی بھگتوں گا کم بخت کو ۔  حئی نے منہ لٹکا لیا۔ عالیہ نے طوفان سر پہ اٹھالیا۔ قیامت ہو جائے میں اس پگلے سے شادی نہیں کروں گی۔ اس لئے مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے کہ سب عورتیں اس پر رحم کھا کر مہربانیاں کرتی رہیں۔ پگلا کیسے ہوا؟ لوگوں نے پوچھا۔ تمہیں پسند کرتا ہے اس لئے؟

ہاں اسی لئے۔ مجھ میں ایسی کون سی بات ہے جو کوئی باہوش و حواس انسان پسند کرے۔

کیا کیا ہنگامے ہوئے۔ خودکشیوں کی دھمکیاں چلیں۔

دلدار تجھے تو چڑی کی دکی سے گھن آتی تھی۔  اماں بلکیں۔

وہ تو آتی ہے اور آتی رہے گی۔

پھر تجھے کیا ہو گیا ہے میرے لال کیوں اپنی زندگی مٹی میں ملا رہا ہے؟؟ کالی مائی نے جادو کر دیا ہے۔ حئی نے مسکین صورت بن کر کہا اور بڑی دھوم دھام سے اپنی زندگی مٹی میں ملا دی۔

دیکھ لینا چار دن میں طلاق دے کر میکے پھنکوا دے گا سب نے پیشن گوئی کی۔ آج اس حادثے  کو گیارہ سال ہو چکے ہیں۔ اس بے ہنگم جوڑے کو دیکھ کر دل سے ایک لمبی چوڑی دلدار نکل جاتی ہے۔ سچ ہے چڑی کی دکی اگر ترپ کی ہو تو حکم کا اکا کٹ جاتا ہے۔

Keywords

Chidi Ki Dukki, Afsana, Ismat Chughtai, urdu story, urdu kahani, urdu afsana, urdu novel online, urdu love story, romantic urdu love story novel, new urdu novel pdf download,

Previous Post Next Post