Kyrgyzstan Medical University MBBS ایک بہت بڑا مافیا بےنقاب

طلباء کرغیزستان جیسے ممالک میں ڈاکٹر بننے کیوں جاتے ہیں؟ کتنا خرچہ آتا ہے؟ اس تعلیم کا نقصان کیا ہے؟ ایک بہت بڑا مافیا بے نقاب
تحریر: عثمان خادم کمبوہ

طلباء کرغیزستان جیسے ممالک میں ڈاکٹر بننے کیوں جاتے ہیں؟ کتنا خرچہ آتا ہے؟ اس تعلیم کا نقصان کیا ہے؟ ایک بہت بڑا مافیا بے نقاب  مارکیٹ میں تقریباً تمام والدین کی خواہش یہی چل رہی ہے کہ اپنے بچے کو ڈاکٹر بنانا ہے۔ وہ بچہ میرٹ پر آتا ہے یا نہیں، ڈاکٹر بننے کے قابل ہے یا نہیں، انسان کی زندگی کی قدر کرنے کی تربیت رکھتا ہے یا نہیں؟ یہ کوئی نہیں دیکھتا بس ڈاکٹر بنانا ہے بچے کو۔  پہلے والدین بچوں کو پرائیوٹ میڈیکل کالج (یا بقول وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز "نالائق طلباء کے میڈیکل کالج") میں داخل کرواتے تھے لیکن ان کی ڈگری کی فیس 1 کروڑ روپے ہو چکی ہے تو والدین کو بتایا جانے لگا کہ بچے کو بیرون ملک کی اعلیٰ میڈیکل یونیورسٹی سے ڈاکٹر بنوائیں وہ بھی سستے میں، تو والدین نے کرغیزستان جیسے ممالک میں بچوں کو بھیجنا شروع کردیا کیونکہ وہاں ڈگری کی فیس 60 لاکھ روپے ہے۔  لیکن والدین اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں بیرون ملک رہنے، کھانے پینے کا خرچہ کافی زیادہ ہے اور دوسرا دھچکا ڈگری مکمل ہونے کے بعد یہ لگتا ہے کہ یہ بچے جب ایم بی بی ایس کر کے پاکستان واپس آتے ہیں تو انہیں لائسنس لینے کیلئے ایک امتحان دینا پڑتا ہے جس کیلئے الگ سے ڈیڑھ دو برس میڈیکل کی اکیڈمیز میں پڑھنا پڑتا ہے اور ان اکیڈمیز کی فیسیں ملا کر بچے کی ایم بی بی ایس کی مکمل ڈگری اور لائسنس ٹیسٹ خرچ 1 کروڑ سے بڑھ جاتا ہے اور ڈگری+لائسنس کو ٹائم 6 برس کی بجائے 8 سال لگتا ہے۔  اب سوال آتا ہے کہ ان والدین سے اصل حقائق چھپا کر بچوں کو بیرون ملک ان ڈگریوں کیلئے بھیجنے کی ترغیب کون دیتا ہے۔ تو بھئی یہ ہے اصل کہانی، یہ ہوتے ہیں وہاں گئے ہوئے پہلے کے سٹوڈنٹس۔ داخلے کروانے والے ایجنٹ جو کسی سٹوڈنٹ کو ایسے ملک بھیجتے ہیں وہ سال بعد اس سٹوڈنٹ سے کہتے ہیں کہ 3 مزید سٹوڈنٹس کا داخلہ کرواؤ تو تمہاری فیس میں 25 فیصد یا 50 فیصد ڈسکاونٹ دے دیں گے۔ وہ طالب علم جو چنگل میں پھنسا ہوا ہے وہ اپنی تھوڑی سی بچت کیلئے تین بچوں کو اس چنگل میں پھنسا دیتا ہے، یہ طالب علم اپنے رشتہ داروں، عزیز و اقارب وغیرہ کو بتاتا ہے کہ جہاں سے میں ایم بی بی ایس کر رہا ہوں/رہی ہوں اس یونیورسٹی کا تو نام ہی بہت ہے اور فیس بھی پاکستان میں پرائیویٹ ایم بی بی ایس سے کم ہے، بیرون ملک کی ڈگری کا ٹیگ بھی ہے، دنیا دیکھنے کا موقع بھی ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ یوں والدین جو پہلے ہی اس ڈاکٹر سٹوڈنٹ سے مرعوب ہوتے ہیں وہ اپنے بچے کو وہاں داخل کروا دیتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر سٹوڈنٹ اپنے 3 کزن، دوست، رشتے داروں وغیرہ کو پھنسا کر اپنی فیس میں تھوڑا سا ڈسکاونٹ لے لیتا ہے اور نئے آنے والے اس کے کزنز وغیرہ کو جب تک اصل حیققت معلوم پڑتی ہے تب تک دیر ہو چکی ہوتی ہے اب وہ اپنے تھوڑے سے فائدے کیلئے آگے اپنے کزنز، رشتہ دار، دوست اور قرابت داروں کے 3 بچے ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں تاکہ انکے داخلے کروا کے اپنی فیس کم کروا سکیں۔ (یوں سمجیں کہ یہ بھی ٹائنز کمپنی کی طرح ایک پانزی سکیم ہے)۔  دراصل یہ سٹوڈنٹ ایجنٹوں کے چنگل میں پھنس کر انکے آگے ایجنٹ بن جاتے ہیں۔  جس یونیورسٹی کا مسئلہ اب بنا اسے 2020 کے آس پاس پاکستان حکومت نے بلیک لسٹ کر دیا تھا لیکن عدم اعتماد کے بعد بننے والی حکومت نے اس یونیورسٹی کے داخلے دوبارہ بحل کروائے اور بتانے والوں کا بتانا ہے کہ اس یونیورسٹی کے داخلوں کیلئے پاکستان میں مین ایجنٹ کمپنی نکے میاں صاحب کی ہے اسی لیے حکومت ملتے ہی اس سورس آف انکم کو فوراً بحال کیا گیا۔

مارکیٹ میں تقریباً تمام والدین کی خواہش یہی چل رہی ہے کہ اپنے بچے کو ڈاکٹر بنانا ہے۔ وہ بچہ میرٹ پر آتا ہے یا نہیں، ڈاکٹر بننے کے قابل ہے یا نہیں، انسان کی زندگی کی قدر کرنے کی تربیت رکھتا ہے یا نہیں؟ یہ کوئی نہیں دیکھتا بس ڈاکٹر بنانا ہے بچے کو۔

پہلے والدین بچوں کو پرائیوٹ میڈیکل کالج (یا بقول وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز "نالائق طلباء کے میڈیکل کالج") میں داخل کرواتے تھے لیکن ان کی ڈگری کی فیس 1 کروڑ روپے ہو چکی ہے تو والدین کو بتایا جانے لگا کہ بچے کو بیرون ملک کی اعلیٰ میڈیکل یونیورسٹی سے ڈاکٹر بنوائیں وہ بھی سستے میں، تو والدین نے کرغیزستان جیسے ممالک میں بچوں کو بھیجنا شروع کردیا کیونکہ وہاں ڈگری کی فیس 60 لاکھ روپے ہے۔

لیکن والدین اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں بیرون ملک رہنے، کھانے پینے کا خرچہ کافی زیادہ ہے اور دوسرا دھچکا ڈگری مکمل ہونے کے بعد یہ لگتا ہے کہ یہ بچے جب ایم بی بی ایس کر کے پاکستان واپس آتے ہیں تو انہیں لائسنس لینے کیلئے ایک امتحان دینا پڑتا ہے جس کیلئے الگ سے ڈیڑھ دو برس میڈیکل کی اکیڈمیز میں پڑھنا پڑتا ہے اور ان اکیڈمیز کی فیسیں ملا کر بچے کی ایم بی بی ایس کی مکمل ڈگری اور لائسنس ٹیسٹ خرچ 1 کروڑ سے بڑھ جاتا ہے اور ڈگری+لائسنس کو ٹائم 6 برس کی بجائے 8 سال لگتا ہے۔

اب سوال آتا ہے کہ ان والدین سے اصل حقائق چھپا کر بچوں کو بیرون ملک ان ڈگریوں کیلئے بھیجنے کی ترغیب کون دیتا ہے۔ تو بھئی یہ ہے اصل کہانی، یہ ہوتے ہیں وہاں گئے ہوئے پہلے کے سٹوڈنٹس۔

داخلے کروانے والے ایجنٹ جو کسی سٹوڈنٹ کو ایسے ملک بھیجتے ہیں وہ سال بعد اس سٹوڈنٹ سے کہتے ہیں کہ 3 مزید سٹوڈنٹس کا داخلہ کرواؤ تو تمہاری فیس میں 25 فیصد یا 50 فیصد ڈسکاونٹ دے دیں گے۔ وہ طالب علم جو چنگل میں پھنسا ہوا ہے وہ اپنی تھوڑی سی بچت کیلئے تین بچوں کو اس چنگل میں پھنسا دیتا ہے، یہ طالب علم اپنے رشتہ داروں، عزیز و اقارب وغیرہ کو بتاتا ہے کہ جہاں سے میں ایم بی بی ایس کر رہا ہوں/رہی ہوں اس یونیورسٹی کا تو نام ہی بہت ہے اور فیس بھی پاکستان میں پرائیویٹ ایم بی بی ایس سے کم ہے، بیرون ملک کی ڈگری کا ٹیگ بھی ہے، دنیا دیکھنے کا موقع بھی ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
 
یوں والدین جو پہلے ہی اس ڈاکٹر سٹوڈنٹ سے مرعوب ہوتے ہیں وہ اپنے بچے کو وہاں داخل کروا دیتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر سٹوڈنٹ اپنے 3 کزن، دوست، رشتے داروں وغیرہ کو پھنسا کر اپنی فیس میں تھوڑا سا ڈسکاونٹ لے لیتا ہے اور نئے آنے والے طلباء کو جب تک اصل حیققت معلوم پڑتی ہے تب تک دیر ہو چکی ہوتی ہے اب وہ نئے طلباء اپنے تھوڑے سے فائدے کیلئے آگے اپنے کزنز، رشتہ دار، دوست اور قرابت داروں کے 3 بچے ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں تاکہ انکے داخلے کروا کے اپنی فیس کم کروا سکیں۔ (یوں سمجیں کہ یہ بھی ٹائنز کمپنی کی طرح ایک پانزی سکیم ہے)۔ دراصل یہ سٹوڈنٹ ایجنٹوں کے چنگل میں پھنس کر انکے آگے ایجنٹ بن جاتے ہیں۔


جس یونیورسٹی کا مسئلہ اب بنا اسے 2020 کے آس پاس پاکستان حکومت نے بلیک لسٹ کر دیا تھا لیکن عدم اعتماد کے بعد بننے والی حکومت نے اس یونیورسٹی کے داخلے دوبارہ بحل کروائے اور بتانے والوں کا بتانا ہے کہ اس یونیورسٹی کے داخلوں کیلئے پاکستان میں مین ایجنٹ کمپنی نکے میاں صاحب کی ہے اسی لیے حکومت ملتے ہی اس سورس آف انکم کو فوراً بحال کیا گیا۔

Keywords: mbbs in kyrgyzstan,best medical university in kyrgyzstan,mbbs in kyrgyzstan for indian students,mbbs in kyrgyzstan fee structure,asian university kyrgyzstan,medical university in kyrgyzstan,kyrgyzstan,mbbs in kyrgyzstan is good or bad,mbbs kyrgyzstan,mbbs in kyrgyzstan for pakistani students,how to take admission in kyrgyzstan,royal metropolitan medical university kyrgyzstan,kyrgyzstan mbbs for indian students, Usman Khadim Kamboh, osh state medical university
Previous Post Next Post