کام اس سے آپڑا ہے کہ جس کا جہان میں۔۔۔۔۔ لیوے نہ کوئی نام ستمگر کہے بغیر
دو ہزار سترہ میں جب نواز حکومت کی بساط لپیٹی گئی تو اس وقت نواز شریف کے آخری الفاظ تھے " کیوں نکالا، مجھے کیوں نکالا" اس کے بعد وہ تقریبا چار سال کا عرصہ سلطنت اور امور سلطنت سے دور رہے جبکہ ان کی وطنی واپسی پر دوبارہ انتخابی ماحول بنایا جا رہا ہے اور سپریم کورٹ نے اپنی زیر نگرانی آٹھ فروری کو ونتخابات کے انعقاد کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔ بظاہر یہ انتخابات کسی صورت ملتوی ہوتے نظر نہیں آ رہے تاہم الیکشن 2024کی تیاریاں روائتی جوش و خروش کے بغیر جاری ہیں۔ نواز شریف کی وطن واپسی اور مختلف عوامی پروگرامز میں مسلم لیگ ن نے جو بیانہ بنایا ہے وہ یہی ہے کہ" ترقی کا سفر جہاں سے رکا تھا وہیں سے دوبارہ شروع ہو گا" یعنی ن لیگ کو یقین ہے کہ حکومت بھی انہی کی آئے گی اور ملکی ترقی کا سفر بھی مسلم لیگ ہی دوبارہ شروع کرے گی۔ حالات و واقعات اور زمینی حقائق بھی اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ ترقی کا سفر جہاں سے رکا تھا وہیں سے شروع ہو گا یہ الگ بحث ہے کہ کن کن کے نزدیک یہ سفر ترقی کا سفر تھا اور کن کن کے نزدیگ یہ سفر ترقی معکوس کا سفر تھا۔ خیر کیوں نکالا کے الفاظ پہ اختتام پذیر ہونے والی حکومت کا ازالا جس شد و مد سے ہو رہا ہے اور جس طرح قائد مسلم لیگ اور ان کے برادر خرد و دیگر اہلخانہ کو وافر و ارزاں انصاف مل رہا ہے وہ دیگر پارٹیوں کو خوف میں مبتلا کر رہا ہے۔دھندلی بینائی رکھنے والوں کو بھی دور سے دیکھنے پر ترازو کے دونوں پلٹرے مساوی نظر نہیں آ رہے۔ حتی کہ سولہ ماہ ڈیموکریٹیک الائنس کے نام پر رشتہ حکومت میں بندھے رہنے والی پیپلز پارٹی بھی کھلے عام ن لیگ پر ہونے والی غیر معمولی عنایات پر شکوہ کناں نظر آ رہی ہے۔ کیوں نکالنے والوں نے اس کیوں نکالا کا اس فراخدلی سے ازالا کیا ہے کہ کیوں نکالا پارٹی کو اس ازالے کا مزہ آ گیا لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا چلا آ رہا ہے کہ پہلے دنیا جہاں کے عیب ایک بندے میں نکالے گئے کرپشن کی داستانیں زینت قرطاس بنیں، اخبارات الیکٹرانک میڈیا، ڈیجیٹل میڈیاملکی و عالمی سطح پر اس گوہر نامدار کی کرپشن کے قصے سناتا رہا، مقامی عدالتیں سزائیں سناتی رہیں، حکومت چھین لی گئی مختلف اداروں میں انہیں بدعنوانی اور کرپشن کے استعارے کے طور پر پیش کیاجاتا رہا، اور پھر انہیں واپس مسند حکومت پر بٹھایا بھی جا تا رہا۔ ا یسا کوئی پہلی بار بھی نہیں ہوا، ماضی بھی انہیں الزامات اور اس کے بعد ان الزامات کو صاف کرنے کے عمل سے عبارت ہے بلکہ ماضی میں لگائے گئے الزامات اور بااختیار حلقوں کی جانب سے ان الزامات کو بعد ازاں صاف کرنے کے نام پر رہ جانے والی سیاہی یعنی "پونجھے"ابھی تک ایک داغ کی مانند چمک رہے ہیں، پھر بھی آج کل اسی ماہر امور حکومت کو واپس لانے کے لئے رستے ہموار کئے جا رہے ہیں، راہیں صاف کرنے کے لئے آئین اور قانون کی دیواروں کی پچھلی جانب پڑے ہوئے ریلیف بھی انہیں بلا تردد و بلا تکلیف دئے جا رہے ہیں۔ ایسی صورت حال پر دیگر سیاسی جماعتوں کا شکوہ کناں ہونا بلکہ قدرے سہم جانا بنتا ہے۔ لیکن اب کی بار ایک فرق ہے جو اس وقت واضح نظر آ رہا ہے، وہ یہ کہ پہلے تو صرف ادارے، یا سیاست دان بد عنوانی کے الزامات لگا کر قائد مسلم لیگ ن کو اپنی سیاسی مہم جوئی کا نشانہ بناتے اور مسلم لیگ ن کی حکومتیں گراتے رہے مگر پانامہ لیکس کے بعد سے جس طرح مختلف تعلیمی و صحافتی اداروں میں انہیں ان کی کرپشن اور بد عنوانی کے حوالے سے زیر بحث لایا گیا اور ملک بھر میں جس طرح عام شہری، نوجوان نسل، طلباء و طالبات اور عوام کا ایک بڑا حصہ انہیں ان کے انہی الزامات کے محدب عدسے سے دیکھ رہا ہے اس کے بعد مرز غالب کا یہ شعر سچ نظر آ رہا ہے کہ!
کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیوے نہ کوئی نام ستمگر کہے بغیر
عوام کے لئے یہ سوال اب شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کیا واقعی قائد مسلم لیگ ن پہ لگنے والے ان الزامات میں کوئی حقیقت اور سچائی ہے یا یہ سب الزامات نظریہ ضرورت کے تحتان پر عائد کر کے انہیں گھر واپس بھیجنے کا سب سے آسان رستہ رہے ہیں۔ اور اگر یہ محض گھر بھیجنے کاآسان رستہ رہے ہیں تو ہر بار یہی رستہ ہی کیوں اختیار کیا جاتا ہے۔ اور اگر یہ الزامات محض الزامات نہیں بلکہ ان میں کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ صداقت بھی پنہاں ہے تو پھر انہیں سزا جزا کے عمل سے گذارتے ہوئے نئی راہیں کیوں نہیں متعین کی جا رہی۔ اس رخ پر بھی دیکھیں تو ہر بار نظریہ ضرورت کے تحت انہی کو ہی کیوں واپس لایا جا رہا ہے۔ کیا یہاں اس وقت امور سلطنت چلانے اور ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا کام واقعی ایسا آن پڑا ہے کہ ان کے بغیر کوئی نہیں کر سکتا وہ بھی ایسی صورت میں کہ جب سارا جہاں انہیں "ستمگر"بھی کہہ رہا ہے۔ یہ بات ہنوز سمجھ سے بالا تر ہے کہ انہیں چوتھی بار وزارت عظمیٰ کے منصب کے لئے راستہ ہموار کیا جا رہا ہے یا چوتھی بار پھر کرپشن اور بد عنوانی کے الزامات عائد کرنے کی مشق کے لئے تختہ تیار کیا جا رہا ہے۔ انہیں تو شاید اس وقت یہی صورت حال معلوم پڑ رہی ہو کہ!
ہنسنے نہیں دیتا کبھی رونے نہیں دیتا یہ عشق کوئی کام بھی ہونے نہیں دیتا
الیکشن 2024کے انعقاد کے لئے اگر فضا کو تھوڑا سا فطری رنگ دیا جائے تو شاید بظاہر بادل نخواستہ انتخابی مہم چلانے والی سیاسی جماعتوں کے چہروں پر بھی قدرے شادابی نظر آ سکے اور لیول پلئینگ فیلڈ ایک رئیل پلئینگ فیلڈ کا منظر پیش کر سکے۔