وہ حقیقی مرد مومن ، پیکر عزم و ثبات (نگہبان سالت) شاعر، محسن نقوی نعت



وہ حقیقی مرد مومن ، پیکر عزم و ثبات

جس نے ٹھوکر سے اُلٹ دی بولہب کی کائنات

ضامن عزم پیمبر بن گئ جس کی حیات

جس کے بچوں کی وراثت تھے جہاں کے معجزات



جس نے رکھ لی آبرو انسانیت کے نام کی

جس نے لُٹ کر پرورش کی ناتواں اسلام کی



جس کی آغوش محبت میں پلی پیغمبری

جس نے بخشی آدمیت کو فلک تک برتری

دفن کر دی جس نے استبداد کی غارت گری

بُت تراشی، بُت پرستی، بُت نوازی ، بُت گری



جس نے بخشی تھی تُجھے توقیر عرفاں یاد کر

اے بنی آدم ابو طالب کے احساں یاد کر



شیخ بطحی ، ناصر دیں ، سید عالی نسب

بحر علم و فضل و شهر جود و معیارِ ادب

پا لیے جس نے رمونو آدمیت بے طلب

جس کی ہیبت سے لرزتے تھے خد و خال عرب



وہ سنی جو اسخیا ء میں مثل اپنی آپ تھا

وہ بہادر جو شجاعت میں علی کا باپ تھا



وہ نبوت کا مصدق وہ اخوت کا مدار

جس نے بخشا ضعف انسانی کو یزداں کا وقار

وہ مزاج آشتی کی سلطنت کا تاجدار

جس کی نسلوں میں نہاں تھی قوت پروردگار



حوصلہ میں کا مزاج عزم سرور ہو گیا

جس کی شہ رگ کا لہو پھیلا تو مصدر ہو گیا



جس کے چہرے پہ فروزاں تھی شجاعت کی شفق

جس کی آنکھوں میں رواں تھی آدمیت کی رمق

جس کی پیشانی تھی تاریخ صداقت کا ورق

وہ ابو طالب جسے مطلوب تھا عرفان حق



جس نے سینے سے لگایا حادثوں کو جھوم کے

چھا گیا جو زندگی پر موت کا مُنہ چوم کے



وه نگہدار محمد ، و و نگہبان حرم

وہ جھلستے ریگزاروں کے لیے ابر کرم

وہ عرب زادوں کے لہجے میں انیس محترم

وہ شبستان رسالت میں چراغاں کا بھرم



آیہ تطہیر ہے جس کے گھرانے کے لیے

جس کی نسلیں کٹ گئیں حق کو بچانے کے لیے



جس کے سنگ در پہ جُھکتی ہو زمانے کی جبیں

جس کا پیکر ہو پیمبر کی صداقت کا امیں

جس کی قُربت میں سکوں پائے امام المُرسلیں

وہ بھٹک جائے رہ حق سے ؟ نہیں' ممکن نہیں



اُس کی ہستی کو خُدا کی شان کہنا چاہیے

اُس کی جاں کو محور ایمان کہنا چاہیے



جس نے ہر مُشکل میں کی ہو وارث دیں کی مدد

جس کی گرد پا کو چُومے فاطمہ بنت اسد

جو علی سے مہدی دیں تک امامت کی ہو جد

جس کے بیٹے کو ملی ہو " کُل ایماں" کی سند



کون کہتا ہے کہ اُس کے دل میں جذب دل نہ تھا

کون کہتا ہے کہ وہ خود مومن کامل نہ تھا



جس کے لب سر چشمہ اعجاز صد حمد درود

جس کے لہجے میں خمار آیہ حق کا درود

جس کا پیکر جلوہ صد رنگ کی جائے نمود

توڑ ڈا لیں جس نے عصر جہل کی ساری قیود



جس کی صہبائے تفکر عافیت آمیز بھی

جس کے احساس آنا کی لو قیامت خیز تھی



جس کی پیشانی کا بل، موج غرور کردگار

جس کے ابرو کی کماں ہو گردش لیل و نہار

وہ ید اللہ کا پدر، وہ مصطفے کا افتخار

جس کو دھرتی پر ملا ہو مُفلسی میں اقتدار



جس کے پوتے کا زمیں پر مقتدی عیسی بنے

کیا کہوں محشر میں اُس کا مرتبہ کیا کیا بنے



وہ شعور و علم و حکمت کا حقیقی امتزاج

جس کے فرق ناز پر جچتا ہو سرداری کا تاج

یہ بھی کیا کم ہے، بشر کی آدمیت کا مزاج

آج تک " شعب ابی طالب " کو دیتا ہے خراج



کس کو اندازہ ہے آس کی عظمت ایمان کا

بانی اسلام خود ممنون ہے عمران کا



اے مورخ وقت کے مغرور کرداروں سے پوچھ

پوچھ ، تاریخ عرب کے سب ستم گاروں سے پوچھ

کربلا میں ٹوٹتی بے لوچ تلواروں سے پوچھ

شام کی گلیوں سے ، چوراہوں سے، بازاروں سے پوچھ



ذریت کس کی یزیدی حوصلوں پہ چھا گئ؟

کس کی پوتی ظلم و استبداد سے ٹکرا گئی؟



بول اسے تاریخ کے زندہ اصولوں کی زباں

کس کے ہام دور سے ٹکراتی رہی میں بجلیاں ؟

کون باطل کے مقابل آج تک ہے کامراں !

سوئے کوفہ پابجولاں تھا وہ کس کا کارواں؟



کسی نے صدموں کو صدادی حق پسندی کے لیے

کس کا گھر اجڑا تھا وہیں کی سر بلندی کے لیے





یہ بھی پڑھیں

Keywords: moshin niaqvi, Mohsin Naqvi poetry, mohisn Naqvi shayeri, محسن نقوی کی شاعری، اردو شاعری، نگہبان رسالت،، موج ادراک،
Previous Post Next Post