پیاری چندہ !
تم پاس نہیں ہو اور دیکھو میں تم سے کرنے کے لئے کتنی باتیں اکٹھی کیے بیٹھا ہوں۔ تم اس وقت شاید کسی اور سے باتوں کر رہی ہوگی ۔ میں تمہیں یاد بھی آتا ہوں گا یا نہیں۔ نہیں معلوم مجھے۔
جانتی ہو مرد کا ذاتی دکھ صرف محبت کا ہوتا ہے۔ باقی دکھ تو اس کے والدین بہن بھائیوں یا قریبی رشتوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ مرد کو بہادر اور مضبوط کہہ کہہ کر دنیا نے اس سے رونے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ میں کسی کو اپنی تکلیف بتا بھی نہیں سکتا۔ سن کر کوئی ہنسے گا ۔ کوئی چند منٹ دکھ کا اظہار کرے گا اور کوئی مجھے گالی دے کر عورتوں کی طرح رونے کا طعنہ دے گا۔ کوئی سینے سے لگا کر دلاسا نہیں دیتا۔ نہ کوئی کہتا ہے یہ میری گود میں سر رکھ کر رو لو۔ اب بھی ناشتہ کروں یا نہ کروں۔ رات کو دودھ پیوں یا بغیر کھانا کھائے سو جاوں کوئی نہیں پوچھتا۔ نہ کوئی سگریٹ پینے کا حساب مانگتا ہے۔ بے حساب سگریٹ پی جاتا ہو ں کوئی ڈانٹتا بھی نہیں۔ نہ کوئی موبائل ایک طرف رکھ کر سونے کا کہتا ہے۔ تمہاری دو دن کی محبت نے میری زندگی کے آخری دو دن اجاڑ اور لاوارث کر دیے ہیں۔ سوچتا ہوں اگر مرد عورت کی زندگی خراب کرتا ہے تو وہ اپنی بیٹی بیوی یا بہن کی صورت میں اس کا قرض اتارتا ہے لیکن اگر عورت خراب کرے تو وہ کس صورت میں قرض اتارے گی ؟ تم سوچ رہی ہوگی یہ کیسی محبت ؟ بد دعا دے رہے ہو؟
نہ میں بد دعا دے رہا ہوں نہ محبت کا دعوی کر رہا ہوں۔ میں تو اس خدا سے سوال کرنا چھوڑ دیا ہے جو کہتا ہے اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ میرے ذہن میں بہت سے سوال ہیں۔ دکھوں میں گھرا ہوا ہوں۔ اور اکیلا لڑ رہا ہوں۔ تمہارے نہ ہونے کا نقصان دیکھ لو۔ میں نے آخری سانس تک لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تم سے باتیں جو کرنی ہوتی ہیں وہ لکھ کر رکھ دیتا ہوں۔ وصیت میں لکھوں گا کہ مرنے کے بعد یہ سب تمہارے حوالے کر دیا جائے تاکہ تم جان سکو کس اذیت میں گزری زندگی۔
اب کاغذ پر لفظوں کی صورت ہماری ملاقات ہوتی رہے گی۔ روز ایک خط لکھا کروں گا اور لکھ کے رکھ دیا کروں گا۔ سمجھوں گا تم تک بات پہنچ گئی میری۔
اب مجھے اجازت دو۔
تمہارا عادی
یہ بھی پڑھیں