میں نے اپنے بارے میں تو شاید بتایا
ہی نہیں لیکن چھوڑیں میرے خیال میں میرے بارے میں کچھ بھی قابلِ ذکر نہیں
ہے، حالانکہ میرے سائیکیٹرسٹ کے مطابق یہ غلط ہے۔ اسکا کہنا
ہے کہ میں دنیا کی اُس زیرواشاریہ دو فیصد آبادی کا حصہ ہوں
جو ایک سو پچاس سے زیادہ آئی کیو رکھتی ہے، شاید یہ سچ بھی
ہو، میں شاعری کرتا رہا ہوں، افسانے لکھ چکا ہوں، اپنے سکول اور کالج
کا ٹاپر رہا ہوں، ابھی بھی ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی سے گریجویشن کر رہا ہوں،
یونیورسٹی کے ایک کلب کا صدر ہوں، ایک میگزین کی ادارت کررہا ہوں لیکن نہ جانے اب
وہ ایک سو پچاس آئی کیو کہاں ہے؟ میں نے لکھنا چھوڑ دیا
ہے، میں اب بھی اپنے ڈیپارٹمنٹ کا ٹاپر ہوں لیکن اب میں پہلے کی طرح لوگوں
کو اپنی ذہانت سے متاثر نہیں کر پاتا، میرے اندر کچھ بھی بہت خاص نہیں رہا، نہ ہی
میں اب ٹینس کھیلتا ہوں نہ ہی فلموں پر تبصرے لکھتا ہوں، لوگوں سے ملنا ملانا نہ
ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ کئی بار خودکشی کے بارے میں سوچ چکا ہوں لیکن
ہمت نہیں کر سکا کہ میں والدین کی اکلوتی اولاد ہوں،میرے اِس عمل سے اُن پر کیا
گزرے گی؟
اب میرا تعارف چھوڑیں۔ میں سڑک پر تھا، دھواں میری سانس کے ساتھ باہر نکلا تو وہ سڑک پر بچھتا چلا گیا اور ایک الگ راستہ بن گیا۔ میں اس غیر حقیقی راستے کا پیچھا نہیں کرنا چاہتا تھا کہ ہمیشہ کی طرح یہ راستہ مجھے اُسی منزل پہ لے جائے گا جو میری نہیں ہے لیکن جب سیگرٹ کا دھواں چھٹا تو میں وہیں پہنچ چکا تھا وہیں۔۔۔اسی منزل پر جو میری نہیں تھی۔ اوہ! آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کون سی جگہ ہے؟
یہ ایک مزار ہے،ایک مرقد۔۔۔شہر کے بیچوں بیچ ایک اکیلی قبر۔ یہ مزار یہاں پہلے نہیں تھا لوگ تو ابھی بھی اسے قبر نہیں سمجھتے لیکن میرے لیے تو یہ ایک مزار ہے، یہاں دفن ہے کوئی میرا۔ معاف کیجیے گا میں پھر کہیں اور چلا گیا۔ سیگرٹ پیتے پیتے میں آج پھر اس سڑک کے کنارے جا بیٹھا،سیگرٹ نے اپنی آخری سانس لی تو میں نے نیا سیگرٹ سلگایا۔ میں جانتا تھا کہ جب تک سیگرٹ ختم نہیں ہوں گے میں واپس نہیں جاؤں گا۔ بیشک میں ادھر نہیں آنا چاہتا تھا لیکن میں جانتا تھا کہ میں ادھر ہی پہنچوں گا، میں جانتا تھا کہ جب تک سارے سیگرٹ ختم نہیں ہوں گے میں واپس نہیں آؤں گا میں نے جان بوجھ کر زیادہ سیگرٹ لیے تاکہ میں دیر تک یہاں بیٹھ سکوں حالانکہ میں تو۔۔۔چلیں چھوڑیں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہاں کون دفن ہے،یہ کیسی قبر اوریہ کس کا مزار ہے۔
یہ میرا مزارہے، یہاں میری
زندگی کے کچھ سال جو میری تمام زندگی پر غالب ہیں، دفن ہیں اور میں
یہاں اس لیے آتا ہوں کیونکہ جب جب میں یہاں آؤں ادھر میرے ماضی کی یادوں کا میلہ
لگتا ہو، میری داستان کا عرس منایا جاتا ہے، میرے پچھتاوے دھمال ڈالتے ہیں اور
میری کہانی کا تھیٹر شو ہوتا ہے اور میں اس سب کا واحدحاضر، ناظر اور تماشائی ہوتا
ہوں۔جب میری سیگرٹ ختم ہو جاتی ہیں تو میں واپسی کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہوں، میلہ
اُجڑ جاتا ہے، یادیں، پچھتاوے سب اپنی اپنی گٹھڑی اٹھا کر لوٹ جاتے ہیں، تھیٹر
سمیٹ لیا جاتا ہے۔
آج بھی اپنی پونجی لٹا کر میلہ اجڑنے
کے بعد میں واپس ہو لیا، چند قدم چلنے کے بعد ہمیشہ کی طرح میں نے پلٹ کر مزار کو
دیکھا اور ہاتھ ماتھے تک لے جا کر سلام کیا،وہ آج بھی چھ سال پراناوہی کالج تھا
جہاں کی ایک لڑکی سے مجھے محبت ہوئی تھی۔
عثمان خادم کمبوہ
مزید پرھیں
میں نے جب مڑ کر دیکھا رستے میں، اک کتاب کھلی پڑی تھی بستے میں
Keywords
urdu story, best urdu story, mazar, usman khadim kamboh, adhuri mohabat ki dastan, اردو کہانی، رومینٹک اردو سٹوری، urdu romantic story, new urdu story, poetry,